کپتان کے وعدے سچ ہونے لگے۔۔اقصیٰ اصغر

وہ باتیں وہ وعدے جو میں بچپن سے سنتی اور دیکھتی آ رہی تھی۔ ہر حکمران آنے سے پہلے وعدے تو کرتا تھا مگر طاقت ہاتھ میں آتے ہی وہ اپنی یاداشت کہیں کھو دیتا تھا توکون میں کون کا کھیل شروع ہو جاتا تھا۔نچلا طبقہ اپنے فیصلے پر ندامت محسوس کرتا اور اگلی باری کسی اور کو آزمانے کے لیے کئی سالوں تک انتظار کرتا رہتا۔وقت کے ساتھ ساتھ امید کم ہوتی دکھائی دینے لگی۔ مگر اس میں کہیں نہ کہیں آس باقی رہی۔ خواب خواہش ہر اک کے دل میں زندہ تھی۔ کوئی تو آئے گا جو سب کے لئے ایک جیسا سوچتا ہوگا۔

غریب کا بچہ ہمیشہ خود کو کم تر محسوس کرتا رہا۔ صلاحیتیں ہونے کے باوجود وہ اندر سے کبھی پُر اعتماد نہ ہو سکا۔ اسے لگتا تھا کہ میں ایک عام ادارے سے پڑھا ہوا ہوں۔ مجھے کیا معلوم یہ تو بڑے سکولوں سے پڑھے ہوئے لوگ ہی اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ کئی دہائیوں سے امیر اور غریب کے بچوں کے درمیان نصاب کا فرق چلتا آ رہا تھا۔

” کپتان نے بھی سب کی طرح آکر وہی دعویٰ کیا۔ میں تمام ملک میں ایک جیسا نصاب رائج کروں گا۔امیر غریب کے بچے کے درمیان نصاب کی بلاوجہ کی تفریق ختم کروں گا۔غریب کا محنت کش کا مزدور کا کسان کا بچہ وہی نصاب پڑھے گا جو وزیر کا بچہ اس ملک میں رہتے ہوئے پڑھ رہا ہو گا۔سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کے درمیان جو فرق ہےاس کو مٹا دوں گا۔”

مبارک ہو آج اس قدر دل باغ باغ ہے یہ خبر سن کر یہ خواہش یہ خواب پورا ہوتا دیکھ کر۔ کہ واقعی کپتان نے ہمارے تمام خواب  پورے کردیے۔ خواب بھی اور خواہش بھی صرف ایک خبر سنا کر۔ کہ اب   پورے ملک میں ایک جیسا نصاب قائم کیا جائے گا۔

اب فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور کا بچہ بھی وہی نصاب پڑھے گا جو فیکٹری کے مالک کا بچہ پڑھے گا۔اب کم ازکم ہمارے بچوں کے اندر خود اعتمادی تو پیدا ہوگی۔ کہ ہم سب ایک جیسا نصاب پڑھ کر آئے ہیں۔وہ اپنے دل سے یہ خوف نکال دے گا ،کہ ہم صرف امیروں کی غلامی کرنے کے لیے ان کے حکم کی تعمیل کے لیے پیدا   ہوئے۔ اچھی تعلیم ہماری قسمت میں بھی ہے۔ اس پر ہمارا بھی حق ہے۔

اب سب اپنی اپنی قابلیت کی وجہ سے ترقی کریں گے۔کیونکہ اب سب کو ایک جیسے گُر سکھائے جائیں گے۔ اب آگے سیکھنے والے ہی کا کمال ہوگا۔وہ کس حد تک کیسے اور کہاں تک سیکھتا ہے۔
اب شاید آنے والے وقتوں میں اس بات پر عہدے تقسیم نہ کیے جائیں کہ یہ اچھے سکولوں سے پڑھ کر آئے ہوئے بچے ہیں اور یہ سرکاری سکولوں سے۔امید ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب عہدے قابلیت کی بنا پر دیے جائیں گے۔اب شاید پاکستان کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب وقت دکھائے گا دنیا کو پاکستان میں جب ہیرے چمکیں  گے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں ہیروں کی کوئی کمی نہیں۔ ہیرے بہت ہیں مگر انہیں کوئی تراشنے والا نہ تھا۔ مگر اب لگتا ہے اس ملک کی ڈور صحیح ہاتھوں میں ہے۔ خدا نے بہت سے ہیروں کو صلاحیتیں دی ہیں وہ باقی پوشیدہ ہیروں کو تراش سکتے ہیں۔ تو مل کر کیوں نہ جشن منائیں۔ پاکستان کے لئے آج بہت بڑی خوشخبری ہے۔ وہ خوشخبری جسے سننے کے لیے کان کی سالوں سے ترس گئے تھے۔ جس نے بھی کہا ہے سچ کہا ہے امید پر دنیا قائم ہے۔
پاکستان زندہ باد!

Facebook Comments

Aqsa Asghar
میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کی طالبہ ہوں۔اور ساتھ لکھاری بھی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply