المیہ/حسان عالمگیر عباسی

وہ بچے بھی دیکھ لیے جن کی آنکھیں نم ہیں۔ وہ بھی نظر آ گئے جن کی آہیں سسکیاں بے بس لاچار ہیں۔ وہ بچے بھی آنکھوں کے سامنے ہیں جو خوابوں کو چکنا چور ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ بچے بچے ہوتے ہیں اور ان کے فلسفے بھی نازک ہوتے ہیں اور سیاست سے بھی کوسوں دور ہوتے ہیں اور اسی میں وہ جچتے بھی ہیں۔ بچپن گزارنا ان کا اولین حق ہے لیکن ہمیشہ یا ازل سے ظالم نے مظلوم پیدا کیے ہیں اور اس حقیقت نے جنم لیا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مذہبی تشریحات، وضاحتیں، سیاسی گہرائیاں، اس جنگ کے دیرپا اثرات، دیگر ممالک کا احتجاج، ظالم جابر کے سامنے سچ کی آواز بلند کرنا، کس نے کتنا حق ادا کیا اور دیگر حساب ایک طرف رکھ دیا جائے تو پیچھے ان بچوں کی آنکھوں میں نمی باقی بچتی ہے اور وہ خواب رہ جاتے ہیں جو ٹوٹ اور بکھر گئے ہیں اور جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ پیچھے وہ المیہ باقی بچتا ہے اور پچھتاوا رہ جاتا ہے کہ ظالم دل کی بجائے دماغ سے کیسے سوچ سکتا ہے؟ ایک نظم کا ٹکڑا نظر سے گزرا کہ کاش بچے جنگ کا حصہ نہ بن پاتے اور عارضی بنیادوں پہ ستاروں بادلوں کی اوٹ پہ انھیں ان کے والدین پہنچا آتے اور جنگ کے خاتمے پہ وہ بتاتے کہ وہ تو ستاروں سے باتیں کر رہے تھے اور بادلوں پہ سوار تھے۔ دنیا اگر امن کا گہوارہ بنانے کی خواہش باقی ہے تو ظلم و بربریت اور جبر کا خاتمہ اس لیے ضروری ہے چونکہ انسان کی جان اور عزت اور وقار اور دل و دماغ (جذبات اور سوچ و فکر) ہر منطق، نظریے، خیال، سوچ، اور جائزے کی رو سے انتہائی مقدم ہے۔ بہت ساری ویڈیوز یہی بتا رہی ہیں کہ انھیں بالخصوص بچوں کو امن کی تلاش ہے اور یہ ان کا بنیادی حق ہے الغرض دنیا میں بسنے والے سبھی انسانوں کا یہ پیدائشی حق ہے کہ وہ سکون اور عافیت سے رہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply