سیاسی کھیل اور نظریہ ضرورت۔۔حسان عالمگیر عباسی

ہماری سیاسی جماعتیں بلکہ خاندان سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے واحد ضامن ہیں اور اقتدار کا انھیں سونپا جانا ہی پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کا واحد حل ہے۔ جب انھیں کرسی مل جاتی ہے تو ملک کے وسیع تر مفاد میں ان کے نزدیک درپردہ قوتیں یکدم مقدسات میں شامل ہو جاتی ہیں اور جب وہی مقدسات اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ایک خاندان کو گھر بھیج کر دوسرے خاندان کو ترجیح دیتے ہیں یا تیسری طاقت کو آزماتے ہیں تو انھیں یاد پڑتا ہے کہ مداخلت بلکہ سازش رچائی گئی ہے نتیجتاً ووٹ کو عزت دو جیسے خوش نما اور بر مبنی دجل نعروں کی مدد سے عوام الناس کی بے وقوفی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس سارے کھیل میں سب سے گندا اور چھوٹا اور بھونڈا کردار بے وقوفوں یعنی کارکنان کا ہے۔

یہ نظریہ ضرورت اسی کو کہتے ہیں کہ ویسے تو ووٹ کی عزت ضروری ہے لیکن چونکہ اس وقت پاکستان کے بچاؤ کی جنگ ہے لہذا ہر صورت مشینری کی مدد لی جائے اور ان قوتوں کو لایا جائے جو ملک کے ساتھ مخلص ہیں حالانکہ طے شدہ اصول کے بعد نظریہ ضرورت کی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہونا یہ چاہیے کہ سب جماعتیں جو اپنے آپ کو جمہوری مانتی ہیں اپنے رویوں میں بھی جمہوریت کو جگہ دیں۔ جمہوریت کے نام پہ انانیت اور نفس کی غلامی کسی صورت ناقابلِ قبول ہے۔ جمہوری طاقتوں کو اصل کھلاڑی کی چالوں سے ہوشیار رہنے اور اپنے اصول خود سے وضع کرنے کی تگ و دو میں تیزی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ کم از کم اس پہ متفق ہونے کی ضرورت ہے کہ کارکردگی دکھانے کا پورا پورا موقع دیا جائے تاکہ انتخابات کی صورت احتساب کیا جاسکے۔ جو حکومت آئے اسے پانچ سال مکمل کرنے دیے جائیں تاکہ سیاسی شہادت نصیب میں نہ آئے اور عوام اپنا فیصلہ سنا سکیں۔ جمہوری طاقتوں کو مل بیٹھ کہ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے چاہئیں اور غیر سیاسی طاقتوں کو پابند بنانے پہ اتفاق کیا جائے تاکہ یہ ملک بیساکھیوں کی بجائے اپنے پاؤں پہ جم کے کھڑا ہو پائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply