گیلیلیواور فادر آف الیکٹریسٹی /ادریس آزاد

چرچ سے معافی مانگنے اور اپنا یہ علمی دعویٰ کہ زمین سُورج کے گرد گھومتی ہے، واپس لینے کے بعد گیلیلیو نے سوچا کہ پادریوں سے بچ بچا کر علمی انکشافات سے لطف اندوز ہونے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ آسمانوں کی بجائے زمینی علم(سائنس) پر توجہ دی جائے، تو چونکہ ستاروں اور سیّاروں یعنی جَنتوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ نہ ہوگی تو چرچ بھی ناراض نہ ہوگا۔ چنانچہ گیلیلیو نے زمین پر گرنے والے اجسام کا مطالعہ شروع کردیا۔ پہلی بار اسراع یعنی ایکسیلیریشن کا مطالعہ کرتے ہوئے اس نے کیلکولس کا فرسٹ پرنسپل ہی دریافت نہ کرلیا بلکہ گرتے ہوئے اجسام کے ساتھ ٹکراتی ہوا کو بھی سمجھنے کی کوشش شروع کردی۔ جب کوئی جسم گرتا تھا تو ہوا اس کی رفتار پر اثرانداز ہوتی تھی۔ ہوا تیز ہوتی تو جسم اور طرح سے گرتا اور ہوا سست ہوتی تو جسم اور طرح سے گرتا۔ سو لازم ہوچکا تھا کہ پہلے ہوا پر غور کیا جائے۔ ہوا اور ہوا کے دباؤ پر غور کرنے کے لیے گیلیلیو نے یہ منصوبہ بنایا کہ کیوں نہ ہوا کو کسی طرح تولا جائے۔ اس نے ایک بوتل میں کچھ پانی ڈالا پھر بوتل کو ایسے کارک کا ڈھکن لگایا جس میں سوراخ تھا اور سوراخ کے ذریعے بوتل کے اندر ایک باریک پائپ ڈالا گیا تھا۔

گیلیلیو نے بوتل کو ایک بار ترازو میں تولا اور پھر پائپ کے ذریعے اس میں ہوا بھرنا شروع کردی۔ کچھ دیر بعد گیلیلیو نے بوتل کا دوبارہ وزن کیا تو بہت معمولی سا فرق تھا۔یاد رہے کہ گیلیلیو ترازو کے باٹوں کی جگہ ریت کے ذرات استعمال کررہا تھا۔ وہ بار بار تجربہ دہرانے کا عادی تھا، چنانچہ جلد ہی اس پر واضح ہوگیا کہ ہوا کا بھی وزن ہوتاہے۔

اسی تجربہ کے دوران گیلیلیو پر واضح ہوا کہ ہوا، پانی سے چارسوگنا ہلکی ہے۔ کیونکہ وہ کبھی بوتل میں زیادہ پانی بھرتا تھا تو کبھی کم اور خالی جگہ میں جتنی ہوا ہوتی تھی، حجم کے اعتبار سے دونوں کی نسبت نکالنا چنداں مشکل نہیں تھا۔ چنانچہ جب گیلیلیو پر ہوا اور پانی کے وزنوں کا فرق واضح ہوگیا تو اس نے ریاضیاتی طورپر بہت بڑی بوتل فرض کرکے حساب کتاب لگانا شروع کردیا۔ اس نے سوچا کہ اگر ہزارہا فٹ لمبی چوڑی بوتل ہو تو یہ فرق زیادہ گہرا نظر آئےگا۔ گیلیلیو نے حساب لگایا کہ اگر اٹلی کے ’’کنواری کے مندر‘‘ جتنی بڑی بوتل ہوتو اس میں ہوا کا وزن ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ ہوگا۔ یہ سوچ کر گیلیلیو کا دماغ ہِل گیا۔ اس نے کہا ضرور کوئی غلطی ہورہی ہے۔ کیونکہ مندر کے اندر لوگ موجود ہوتے ہیں اور اگر ایک مندر میں ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ کا وزن لوگوں کے سروں پر پڑ رہا ہے، تو انہیں تو دباؤ سے مر جانا چاہیے۔ چنانچہ گیلیلیو نے کہا، ’’دراصل بوتل بند ہوجانے کے بعد تو ہوا کا وزن ہوتاہے لیکن کھلی جگہ پر موجود ہوتے ہوئے ہوا بے وزن ہے۔ یہ نہایت غلط خیال تھا، لیکن گیلیلیو کی تسلی ایسے ہی ہوتی تھی، سو اس نے اختیار کرلیا۔

اسی زمانے یعنی 1630 میں فلورینس کا گرینڈ ڈیوک (نواب) پمپ کے ذریعے پانی پہاڑی کے اوپر کھینچنے پر تحقیقات اورتجربات کروا رہا تھا۔ نشانی کے لیے بتاتا چلوں کہ ہمارے ہاں یہ شاہجہان کا زمانہ تھا۔ 1630 میں حضرت سلطان باہوؒ کی پیدائش ہوئی۔ بہرحال ڈیوک آف فلورینس نے دیکھا کہ ہر طرح کا پمپ تینتیس فٹ کی بلندی سے زیادہ پانی چڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ کسی کو کچھ سمجھ نہ آرہی تھی کہ آخر اس حد یعنی تینتیس فٹ بلندی، کا راز کیا ہے؟ اب چونکہ گیلیلیو ہوا کا وزن معلوم کرچکاتھا اور صرف گیلیلیو کی ریاضی ہی جواب دے پارہی تھی کہ تینتیس فٹ حد کی وجہ کیا ہے؟ تو جواب تو موجود تھا لیکن گیلیلیو خود ابھی اپنے اسی خیال پر قائم تھا کہ کھلی جگہ ہوا کا وزن نہیں ہوتا۔البتہ گیلیلیو کا ایک شاگرد اور اسسٹنٹ ایونجلسٹا ٹارسیلی اس بات کو نہیں مانتا تھا۔ چنانچہ اس نے حساب کتاب لگا کر اس سوال کا جواب نکال لیا کہ آخر تینتیس فٹ بلندی تک پانی چڑھنے اور پھر اس سے اوپر نہ چڑھنے کی وجہ کیا ہے۔

ٹارسیلی نے کہا کہ ہوا کا وزن ہر جگہ ہوتا ہے اور ’’ہم دراصل ہوا کے سمندر کی تہہ میں رہتے ہیں‘‘۔ ٹارسیلی نے جواب دیا کہ پمپ مزید اوپر تک پانی کو نہیں کھینچ سکتا، اس کی وجہ یہ نہیں کہ پمپ کا ویکیوم کھینچ نہیں پارہا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ باہر سے ہوا اسے(یعنی پانی کو) دبا رہی ہے۔ اب چونکہ پمپ میں ایسا کوئی پرزہ نہیں لگا ہوا جو ہوا کو واپس اُلٹا دبادے، اس لیے ویکیوم کا کھینچنا اور بیرونی ہوا کا دباؤ آپس میں برابر ہوجاتے ہیں۔

1644 میں، جب گیلیلیو فوت ہوچکا تھا ٹارسیلی ایک ایسا آلہ بنانے میں کامیاب ہوگیا جو بظاہر نہایت ہی سادہ تھا لیکن حیران کن حد تک اس نے آئندہ صدیوں پر اثر ڈالا۔ وہی آلہ نا  صرف انجن کی بنیاد ہے بلکہ برقیات کی بنیاد بھی ٹارسیلی کا پارے والا پمپ ہی ہے۔ اس آلے میں پانی کی جگہ پارہ اس لیے استعمال کیا گیا تھا کہ پارہ پانی سے تیرہ گنا بھاری ہے۔ پانی ڈالنے سے ہوا کا کالم تینتیس فٹ کا بن رہا تھا تو پارہ ڈالنے سے صرف ڈھائی فٹ کا کالم بنا۔ اس طرح یہ پمپ سائز میں بہت چھوٹا تھا اور اچھے طریقے سے بار بار بنایا جاسکتا تھا۔

ٹارسیلی نے تین فٹ لمبی شیشے کی ٹیوب لی اور اسے مرکری یعنی پارے سے بھر دیا۔ اسی طرح اس نے ایک ٹب لیا اور اس میں کافی سارا مرکری ڈال دیا۔ اب اس نے یوں کیا کہ ٹیوب کے کھلے سرے کو گتے سے عارضی طورپر (ہاتھ کے سہارے سے) بند کرکے الٹا دیا۔ اور اُلٹا کر پارے والے ٹب میں رکھ دیا، جبکہ اب اس نے گتا ہٹا لیا تھا۔ اب ٹیوب کا کھلا سرا پارے میں ڈوب کر نیچے ٹب کی تہہ پر تھا۔ ظاہر ہے الٹی ٹیوب میں پارے نے نیچے کی طرف جانے کی کوشش کی اور اس کی پشت جو کہ اوپر تھی، وہاں سے کافی سارا پارہ ہٹ گیا، یعنی وہاں ویکیوم پیدا ہوگیا، جبکہ ٹب والے پارے میں تھوڑا سا اضافہ ہوگیا۔ بس اتنا سا(پارہ) جتنا ٹیوب سے نیچے آکر ٹب کے پارے میں شامل ہوا۔ ٹیوب میں ایک خاص سطح تک نیچے گرنے کےبعد پارہ مزید نیچے گرنا کیوں رک گیا تھا؟ اس لیے، کیونکہ ٹب ایک کھلا برتن تھا اور باہر سے کھلی فضا کی ہوا اس پارے پر وزن ڈال رہی تھی۔ اور یوں ٹارسیلی نے ایک ایسا ویکیوم پمپ بنا لیا جس میں سے ہوا کھینچنے (سَکشن) کے لیے کسی آلے کی ضرورت نہ رہی۔ یہ تھا دنیا کا پہلا بیرومیٹر، جو حقیقت میں نا  صرف انجن کی بنیاد ہے بلکہ الیکٹرسٹی کی بھی بنیاد ہے۔

ٹارسیلی کا بیرومیٹر بہت سادہ آلہ تھا۔ کھلے ٹب میں موجود پارے پر بیرونی ہوا کا دباؤ پڑ رہا تھا جبکہ بند ٹیوب میں موجود خلا پر یہ دباؤ نہیں پڑ رہا تھا، کیونکہ شیشے کی دیواروں نے ہوا کے دباؤ کو اپنے وجود پر روک رکھا تھا۔ لیکن ٹب میں موجود پارے پر پڑنے والا ہوا کا دباؤ چونکہ بیرونی ہوا کا دباؤ تھا جو کہ بہت زیادہ تھا، اس لیے ٹب میں موجود پارے نے ٹیوب کے پارے کو ایک خاص حد سے نیچے نہ گرنے دیا۔

یہ آلہ فقط انجن اور بجلی کی دریافت کا باعث ہی نہیں بنا بلکہ موسمیات کی بھی بنیاد بنا۔ کیونکہ جب جرمن کے ایک سیاستدان اوٹووان گوریکا نے ٹارسیلی کے آلے کو زمین کے مختلف نشیب و فراز پر لے جاکر دیکھا تو ٹیوب میں موجود پارے کی بلندی متاثر ہورہی تھی۔ یعنی پہاڑ پر ہوا کا دباؤ کم تھا اور زمین پر زیادہ تھا۔ اور اس طرح ہوا کے دباؤ کی پیمائش کی وجہ سے بیرومیٹر اور گوریکا کو بابائے موسمیات مانا جاتاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اورپھر ایک دن یوں ہوا کہ ٹارسیلی اپنا بیرومیٹر لے کر کمرے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف جارہا تھا جبکہ کمرے میں اندھیرا تھا۔ تو اس نے دیکھا کہ اندھیرے میں ٹیوب کی خالی جگہ میں ہلکی سی سبز روشنی پیدا ہوئی۔ تب تو اس نے بار بار ٹیوب کو حرکت دینا شروع کردی۔ ہر بار ہی روشنی پیدا ہوئی۔ ٹارسیلی اپنے وقت میں تو اس کا راز نہ جان سکا۔ البتہ اس نے اتنا اندازہ ضرور لگا لیا کہ ٹیوب میں جس مقام سے پارہ ہٹ گیا ہے وہاں پارے کے کچھ ذرات باقی ہیں اور یہ روشنی انہیں میں سے آرہی ہے۔
اورپھر،
1705 میں نیوٹن کے اسسٹنٹ فرانسس ہاکس بی نے یہی تجربہ دہرایا اور ٹیوب کو خوب گھما گھما کر دیکھا۔ ہر بار ٹیوب کی اس خالی جگہ میں جہاں پارہ موجود نہیں تھا روشنی پیدا ہورہی تھی۔
اور یہ شخص ہے فادر آف الیکٹریسٹی جبکہ یہ مشین کہلاتی ہے، ہاکس بی مشین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply