کیا خدا کے منکرین سب مفکرین کی فطرت مسخ ہے؟۔۔انجم گیلانی

عام طور پر ایک جملہ حقیقتِ ثابتہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ اگر انسان کی فطرت مسخ نہ ہو چکی ہوتی تو وہ خدا کے انکار کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس اہم موضوع پر ایک بحث کے دوران میرا جواب تھا کہ
میں نہیں مان سکتا کہ سٹیفن ہاکنگ، رسل، ڈکنز اور آئین سٹائن جیسے لوگ جو فطرت ہی کے رازوں کو آشکار کر رہے ہیں اور قوانینِ فطرت کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں ان کو ہی فطرت مسخ ہونے کا طعنہ دیا جا رہا ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ جن کی فطرت سالم ہے وہ فطرت کے قوانین سمجھ کر انسانیت کے لیے کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔

رسل سے کسی نے کہا تھا کہ اگر مرنے کے بعد خدا سے سامنا ہوا تو کیا کرو گے۔؟  مسکرا کے  بولا، اگر اس نے پوچھا کہ مجھے کیوں نہیں مانتاتھا تو کہوں گا؛
Insufficient evidence O God
Insufficient evidence!!
مجھے بالکل یہ سمجھ نہیں کہ زندگی بھر صداقتوں کی تلاش میں سرگرداں رہنے والوں کی فطرت تو مسخ ہے لیکن تجسس و جستجو اور کائنات کے تحقیقی مطالعے سے بے نیاز محض غیب پہ ایمان رکھنے والے فطرتِ سلیمہ کے حامل۔

عزیزانِ محترم! یہ کائناتی قوانین ہیں۔ ان کو ہی قوانینِ فطرت کہا جاتا ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے والے خود مسخ فطرت کے مالک نہیں ہو سکتے بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ جو کائنات کی فطری باریکیاں سمجھ گئے تو خود اپنی فطرت کی آواز ان سے کیسے اوجھل ہو گئی؟ یہ ممکن نہیں۔ آپ یہ دیکھ لیجیے  کہ فطرت کے جو راز انہوں نے سمجھے، ارد گرد اس کی برکات بھی نظر آ رہی ہیں اور پوری انسانیت ان سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ گویا یہ کوئی خواب، کرامت یا انفرادی تجربہ نہیں ہے۔ یہ کیسے باور کیا جائے کہ کائناتی علم کے ارتقا میں بے پناہ اضافہ کرنے والے خود اپنی ہی فطرت سے نا آشنا تھے۔ ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ جن لوگوں نے حقیقت کو سمجھنے میں اپنی زندگیاں صَرف کر دی ہیں، وہ قابلِ احترام لوگ ہیں۔ پورے خلوص، تفکر و مطالعہ اور آگے بڑھنے کی تحقیق میں جدوجہد کرنے والے چاہے کسی بھی نتیجے پہ پہنچے   ہوں ان کی فطرت کبھی مسخ نہیں ہو سکتی۔
شاہد اسے عشق نہ سمجھے،
جس کرب میں عقل مبتلا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply