ذہانت (26) ۔ کتا یا بھیڑیا؟/وہاراامباکر

کینسر کو تصویر سے پہچاننے میں کامیابی کے بعد بظاہر لگتا ہے کہ اگلا منطقی قدم ایسی مشین بنا لینا ہو گا لیکن پہچاننے والے الگورتھم کا دائرہ کار بہت مختصر ہے۔ تشخیص کی مشین کو جو انفارمیشن ملے گی، وہ اصل وجہ سے بہت دور بھی ہو سکتی ہے۔

 

 

 

کسی مریض کو بازو میں سوئیاں سے چبھ رہی ہیں تو اس کی ممکنہ وجہ پٹھے کا spasm ہو سکتی ہے جو کہ بھاری وزن اٹھانے کے باعث اعصابی خلیے سے شروع ہوا ہو۔ یا پھر یہ غیرمعیاری خوراک کی وہج سے آنتوں میں سوزش کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ الگورتھم (یا ڈاکٹر) کو ایک علامت لینی ہے اور اپنا واپس راستہ بنانا ہے جو درست تشخیص کی طرف جاتا ہو۔ یہ واٹسن کیلئے یقنی طور پر بہت بڑا چیلنج ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور اس کے ساتھ دیگر مسائل بھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن 2012 میں ایک نیورل نیٹورک کو پالتو کتے اور جنگلی بھیڑئے کی پہچان کی تربیت دینے کے لئے تصاویر کا ایک سیٹ دیا گیا جس میں کتوں اور بھیڑیوں کی تصاویر تھیں۔ اس نے سیکھ لیا کہ کس تصویر میں کونسا جانور ہے اور اس کی مدد سے پیشگوئی کر سکتا تھا۔ جیسا کہ بعد میں پتا لگا کہ جو چیز اس نے سیکھی تھی، وہ یہ کہ جس تصویر کے پسِ منظر میں برف ہو، وہ بھیڑیا ہو گا، ورنہ کتا!! یہ اس لئے کہ ڈیٹا سیٹ ہی ایسا تھا۔
یہ سادہ ڈیٹا سیٹ تھا جس میں کچھ ابہام نہیں تھا۔ جبکہ میڈیسن خوفناک پیچیدگی سے بھری ہوئی ہے۔
تھامس فکس ایک کمپیوٹیشنل پیتھولوجسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ “میڈیکل کے سپیشلائزڈ علاقے میں آپ کو کمپیوٹر کو تربیت دینے کے لئے ڈیٹا تیار کرنے میں ہی ماہرین کی دہائیاں لگ سکتی ہیں”۔
خاص فوکس کے ساتھ کئے گئے سوالات کے لئے یہ مسئلہ قابلِ حل ہو سکتا ہے (مثال کے طور پر، واضح طور پر کینسر والے ٹیومر کی سلائیڈ کی بالکل صاف سلائیڈ سے تفریق کرنے میں) لیکن ایک عمومی تشخیص کی مشین بنانے کے لئے واٹسن کو ہر مرض کو سمجھنا پڑے گا۔ اور اس کے لئے اعلیٰ تربیت یافتہ ماہرین کی فوج درکار ہو گی جو اسے متعلقہ مریضوں کا متعلقہ ڈیٹا تیار کر کے دے۔ اور ایسے تربیت یافتہ لوگوں کے پاس عام طور پر اس سے زیادہ اہم کام ہوتے ہیں (مثال کے طور پر، لوگوں کی زندگیاں بچانا)۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply