مسائل کا سامنا ہر انسان کو ہوتا ہے/عاصمہ حسن

ہر صبح ‘ ہر نئے دن کے آغاز کے ساتھ ہمیں نئے مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ـ اکژ و بیشتر ہم اُن مسائل کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے یعنی ہمارے گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ ایسا ہو جائے گا لیکن ہمیں ہر حال میں اُس صورتحال سے نمٹنا پڑتا ہے ـ یہی نہیں بلکہ عمومی طور پر اکیلے ہی سامنا کرنا پڑتا ہے

 

 

 

 

کیونکہ آپ کی مدد یا حوصلہ بڑھانے والا شاید کوئی نہیں ہوتا اور کوئی دوسرا آپ کو’ آپ کے درپیش مسائل کوسمجھ نہیں سکتا یا آپ جس کیفیت سے گزر رہے ہیں یہ کوئی دوسرا محسوس نہیں کر سکتا ـ
کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتی کہ اُس مشکل وقت سے باہر کیسے نکلا جائے یا اُن مسائل کا حل ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتا اور بعض دفعہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ہمیں اپنے کیے گئے فیصلوں پر افسوس بھی ہوتا ہے لیکن اُس وقت تک پانی سر پر سے گزر جاتا ہے پھر اس فیصلے پر پچھتانے کا ‘ پریشان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ـ

عام طور پر ہمیں وقت اور حالات کے دھارے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے ـ وقت کے گزرنے کے ساتھ آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں یا پھر ہم ان کے عادی ہو جاتے ہیں ـ.ایسے میں ہماری سوچ ہی ہے جو ہمیں حالات سے مقابلہ کرنا سکھاتی ہے اور مسائل کو وسائل کی کمی کے باوجود چیلنج سمجھ کر ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی طاقت اور ہمت دیتی ہے ـ.

ہم بہ خوبی واقف ہیں کہ یہ مسائل’ پریشانیاں ‘ دکھ اور تکالیف یا اچانک سے آئی کوئی بھی افتاد زندگی کا حصہ ہیں اور کبھی بھی حالات ہمارے کنٹرول میں نہیں ہوتے اور نہ ہی نتائج ویسے ہوتے ہیں جیسا ہم نے سوچ رکھا ہوتا ہے ایسے حالات اور مواقع پر کمال یہ ہے کہ ہم مسائل کا خوش دلی سے سامنا کریں اور ان کا مناسب حل تلاش کریں ـ جذبات میں آ کر جلدبازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں بلکہ خود کو وقت دیں تاکہ سوچ کر بہتر سمت میں پیش قدمی کر سکیں ـ.

کچھ فیصلے ہمارے فوری کرنے کے ہوتے ہیں اور جب آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے ہی کرنا ہے تو پھر اپنے اعصاب پر قابو رکھیں اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق فیصلہ کر گزریں لیکن اُس پر پچھتائیں نہیں بلکہ خود کو شاباش دیں کہ اُس مشکل وقت میں آپ نے اپنے حواس پر قابو رکھا اور مناسب فیصلہ کیا پھر اُس تجربے سے سیکھ کر آگے بڑھ جائیں ـ ہاں اُس غلطی کو کبھی دوبارہ نہ دہرائیں ـ ہم اپنے تجربات سے سیکھتے ہیں ـ زندگی میں رسک نہیں لیں گے تو آگے کیسے بڑھیں گے ـ خطرات سے کھیلنے میں ہی زندگی کا لطف ہے ـ جیسے جھیل میں پانی کی موجوں اور لہروں کا شور اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے بالکل اسی طرح زندگی ایک ڈگر پر چلے’ اتار چڑھاؤ’ شور شرابا نہ ہو تو زندگی بے رونق ہو جائے اور ہمیں اپنے رب کا شکر ادا کرنے کا موقع ہی نہ ملے ـ۔

زندگی ایک کٹھن سفر کا نام ہی تو ہے اور قدرت ہمیں ‘ ہماری قوتِ برداشت کے مطابق مختلف امتحانات میں ڈالتی رہتی ہے’ تاکہ ہم ہاتھ پاؤں ماریں’ سوچیں ‘ سمجھیں اپنی کھوج میں کامیابی حاصل کریں اور اپنے لیے نئے اور بہتر راستے تلاش کر سکیں ـ۔

جب سب کچھ رب کی طرف سے ہوتا ہے تو اِس پر پچھتاوا کیسا ‘ پریشانی کیسی ؟ بس کائنات کے مالک کا شکر ادا کریں کہ اُس ذات نے آپ کو اِس قابل سمجھا اور آپ کو خود پر کام کرنے’ اپنی صلاحیتوں کو جانچنے’ بروئے کار لانےا ور نکھارنے کا موقع فراہم کیا ہے ـ یاد رکھیں یہ موقع بھی ہر کسی کو نہیں ملتا ـ ربِ عظیم چنُتا ہے اپنے پیاروں کو تاکہ آپ اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھ سکیں اور اس جانب قدم بڑھا سکیں اور کندن بن سکیں ـ۔

مسائل کا حل نکل آتا ہے ‘ وقت گزر جاتا ہے لیکن جو ہم ذہنی اذیت اُٹھاتے ہیں اس کے دُوررَس نتائج مرتب ہوتے ہیں جو ہماری صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں لہذا کسی بھی مسئلے کو خود پر حاوی نہ کریں ـ مسائل کا سامنا ہم سب کو ہے اور آج کا دور بہت مشکل اور کٹھن ہے ـ سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانے میں ہی بہتری ہے تاکہ بڑی پریشانی سے بچا جا سکے ـ۔

زندگی کے سفر کے دوران ہم بہت سارے نئے لوگوں کو اپنی زندگی میں شامل کرتے ہیں اور ساتھ ہی کئی لوگ ہمیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ‘ کچھ کو ہم چھوڑ دیتے ہیں لیکن زندگی آگے بڑھتی رہتی ہے ـ اِسی کا نام زندگی ہے لیکن کوشش کریں کہ آپ کے اردگرد ایسے لوگ ہوں جو مثبت سوچ کے حامل ہوں اور آپ کے ساتھ کھڑے ہونے والے ہوں ‘ کم ازکم مخلص ہوں ‘ آپ کی بات کو سمجھ اور سن سکیں ـ ایسے لوگوں کو نکال دیں یعنی مائنس کر دیں جو منفی سوچ کے حامل ہوں’ جو سر درد کا باعث بنیں اور جو ہر وقت آپ کو تنقید کا نشانہ بنائیں اور صرف اپنے مطلب کے لیے آپ کے ساتھ ہوں ـ۔

جیمز کلئیر اپنی کتاب ایٹومک ہیبٹس میں لکھتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعلقات بنائیں یا اٹھنا بیٹھنا شروع کریں جیسا آپ بننا چاہتے ہیں ـ کچھ عرصے بعد ہی آپ کے اندر ان کے اوصاف خودبخود پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے ـ۔

زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر ہماری شخصیت میں چار چاند لگنے چاہیے ـ اسی لئے کہتے ہیں کہ تجربہ ہمیں بہت کچھ سکھاتا ہے ـ ہر موڑ پر ہمیں کسی نہ کسی امتحان کا سامنا ہوتا ہے اور فتح اُسی کا مقدر بنتی ہے جو اپنی غلطیوں پر پشیمان نہیں ہوتے بلکہ اُس سے سبق حاصل کرتے ہیں ـ اس کے برعکس ایک ہی غلطی کو بار بار دہرانے سے تکلیف اٹھانی پڑتی ہے اور بڑے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے ـ
آپ کی خوداعتمادی ہمیشہ کامیابی کا سبب بنتی ہے ـ قدرت نے ہر انسان میں خوبیاں رکھی ہوتی ہیں لیکن زندگی میں وہی لوگ بلندی تک پرواز کرتے ہیں جو اپنے مزاج پر قابو رکھ کر ٹھنڈے دماغ سے فیصلے کرتے ہیں ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنی سوچ کو ہمیشہ مثبت رکھیں اور آگے بڑھنے کے راستے خود تلاش کریں ـ کسی دوسرے کی طرف نہیں بلکہ اپنے زورِ بازو پر انحصار کریں ـ مسائل کو خود پر حاوی نہ کریں بلکہ ان کے حل کی طرف توجہ رکھیں سوچنے سے ‘پریشان ہونے سے مسائل میں کمی واقع نہیں ہو گی ـ حالات کسی کے بھی اختیار میں نہیں ہوتے لہذا خود کو پُرسکون رکھ کر حل تلاش کریں اور ہمیشہ خود کو مثبت رکھیں ـ مسائل سے ڈرا نہیں جاتا بلکہ ان کو اپنی ہمت اور مضبوط اعصاب سے ڈرایا جاتا ہے ـ۔
اللہ ہم سب کے لیے آسانیاں پیدا کریں ـ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply