• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • چائلڈ ٹراما کا شکار بننے والے بچوں کا مستقبل/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

چائلڈ ٹراما کا شکار بننے والے بچوں کا مستقبل/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

ایک بہت اہم مسئلہ جو ہمارے یہاں نظر انداز ہوتا ہے، وہ ہے “چائلڈ ٹراما”۔یہ ٹراما جسمانی ہو، نفسیاتی ہو ، جنسی ہو، روحانی ہو یا کسی بھی شکل میں ہو۔ اس پہ بات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

کچا برتن بنتے دیکھا ہے آپ نے کبھی ؟

اس کچے برتن پہ کوئی بھی اچھا یا بُرا نقش بڑی آسانی سے بنایا جا سکتا ہے لیکن جب وہ کچا برتن پک جائے تو یہ بنے ہوئے نقش مٹتے نہیں ہیں، ہمیشہ کے لیے اس برتن پہ ٹھہر جاتے ہیں۔

چھوٹے بچے بھی ایسے ہی کچے برتن ہوتے ہیں، ان پہ جو نقش بنا دیے جائیں وہ ساری عمر ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس کچے برتن کو پکا ہونے سے پہلے تک بہت احتیاط سے سنبھالنا ہوتا ہے۔ نہ تو ضرورت سے زیادہ نرمی دکھائی جا سکتی ہے نہ ضرورت سے زیادہ سختی۔ دونوں صورتیں ہی اس کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔

اگر والدین میں سے کوئی ایک شدید غصے والا ہو، کسی قسم کے نفسیاتی مسئلے کا شکار ہو تو اس کا رویہ بچے پہ بہت گہرا اثر رکھتا ہے۔

وہ بچے میں بلاوجہ کے خوف پیدا کر سکتا ہے، اس کی خوداعتمادی کا قاتل ہو سکتا ہے۔

والدین میں سے کوئی ایک بچوں کی بلاوجہ مار پٹائی کرنے والا ہو تو وہ بچوں کو سرکشی پہ مجبور کرے گا یا انھیں ڈھیٹ بنائے گا یا کسی اور قسم کے نفسیاتی عارضے کا شکار بنائے گا۔

والدین ضرورت سے زیادہ پیار کرنے والے ہوں، بچے کی ہر بات ماننے والے ہوں۔ اس کی ہر فرمائش پوری کرنے والے ہوں تو یہ بچہ زندگی بھر ہر چیز کو اپنی ملکیت ہی سمجھنا چاہے گا۔ وہ انکار سننے کی تکلیف برداشت نہیں کر سکے گا۔

والدین آپس میں لڑتے جھگڑتے ہوں، چیختے چلاتے ہوں تو شدید امکان ہیں کہ بچے بھی ان کی طرح لڑائی جھگڑا کرنے والے بنتے جائیں گے، بات بے بات چیخنے چلانے والے بن جائیں گے۔

بچے کے سامنے جھوٹ بولا جائے تو وہ جھوٹ کو برائی سمجھنا چھوڑ دے گا، وہ بھی جھوٹ بولنا شروع کر دے گا۔

بچے کی جائز ضروریات پوری نہ ہو سکیں تو وہ مسلسل ترستا رہے گا، یہ مسلسل تکلیف اس کی ذہنی پختگی کے لیے شدید نقصان دہ ہو گی۔

کبھی کسی نے سوچا بچے گھروں سے بھاگ جاتے ہیں تو کیوں بھاگ جاتے ہیں؟ یہ بچے پیسوں کے لیے یا اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے گھر سے نہیں بھاگتے۔ وہ صرف تب بھاگتے ہیں جب انھیں اپنے گھر میں گھٹن ہونے لگتی ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ باہر کا ماحول گھر سے بہتر ہو گا۔ وہ اس گھٹن زدہ ماحول سے نجات کے لیے بھاگتے ہیں۔ اس لیے بھاگتے ہیں کہ انھیں لگتا ہے گھر میں ان کی نفسیات کو، ان کے جذباتی مسائل کو کوئی نہیں سمجھ رہا۔ ان کی عزت نفس کا یا ان کے مقام کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔

بچوں کو والدین سے ضروری پیار نہ ملے تو وہ یہ پیار کی کمی دور کرنے کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیں گے۔ دوسرے رشتے داروں کی طرف بڑھیں گے یا گھر سے باہر اجنبیوں سے یہ پیار وصول کرنے کی کوشش کریں گے۔

ایسی کوشش میں وہ رشتے دار یا باہر کے لوگ بچوں سے ہر طرح کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان سے ناجائز کام کروا سکتے ہیں، ان کا جنسی استحصال کر سکتے ہیں۔ انھیں نشے پہ لگا سکتے ہیں، ان کی شخصیت کو عمر بھر کے لیے تباہ کر سکتے ہیں۔

یہ سارے مسائل بچے کے اوپر مستقل اثرات چھوڑ سکتے ہیں۔ وہ بچہ عمر بھر کے لیے کسی نفسیاتی عارضے کا شکار ہو سکتا ہے۔ کسی برائی، کسی نشے کا عادی ہو سکتا ہے۔ اخلاقی طور پہ مسلسل کسی برے رویے کو اپنانے پہ مجبور ہو سکتا ہے۔ جنسی طور پہ کسی ابنارمل رویے کا شکار ہو سکتا ہے۔ بوڑھوں میں یا چھوٹی عمر کے بچوں میں جنسی کشش محسوس کر سکتا ہے۔ جنسی جرائم کا عادی ہو سکتا ہے۔

عمر بھر کا ڈپریشن کا مریض بن سکتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہو سکتا ہے۔ اپنی شادی شدہ زندگی میں اچھا رویہ نہ رکھ پانے کی وجہ سے اسے تباہ کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔

بلاوجہ کے چڑچڑے پن کا شکار ہو سکتا ہے، سخت غصیلا یا سخت ڈرپوک بن سکتا ہے۔ غرض یہ کہ وہ کسی بھی قسم کے مسئلے کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہ بچپن کا ٹراما اس کی ساری زندگی خراب کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے منسلک درجنوں زندگیاں تباہ کر سکتا ہے۔

ایسے بچے خود اذیتی کا شکار ہو سکتے ہیں، اپنے آپ کو بلاوجہ تکلیف پہنچانے والے بن سکتے ہیں۔ بے حس بن سکتے ہیں، دوسروں کو بلاوجہ تکلیف پہنچانے والے بن سکتے ہیں۔

کچھ لوگ سمجھ بوجھ آنے کے بعد اپنے بچپن کے ٹراما کے اثر سے نکل آتے ہیں جبکہ کچھ ساری عمر اسی ٹراما کے اثر کے نیچے گزار دیتے ہیں۔

اب سوال آتا ہے کہ ان مسائل کا حل کیا ہے ؟

سب سے پہلے تو ایسے لوگوں کو قصوروار سمجھنا چھوڑ دیں۔ ان کی تکلیف کو، ان کی مشکل کو سمجھیں۔ ان کو تب تک کوئی الزام مت دیں جب تک وہ کسی دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بن رہے۔ وہ کسی قسم کے ایسے نفسیاتی یا جنسی رویے کے مالک ہوں جو آپ کو ناپسند ہو یا آپ کے خیال میں غلط ہو تو صرف اپنے خیال کی بنیاد پہ انھیں برا مت سمجھیں۔

اس کے بعد ان کی بات سنیے۔ انھیں کہیے کہ وہ اپنا دکھ آپ سے بانٹ لیں، اپنی تکلیف کھول کر آپ کے سامنے رکھ دیں۔ اپنے ٹراما کو پوری طرح آپ کے سامنے پیش کر دیں۔ یہ بوجھ ان کے اندر سے نکلے گا تو انھیں کچھ سکون آئے گا۔ وہ اپنی تکلیف کسی سے بانٹیں گے تو اس تکلیف کے اثر سے نکل سکیں گے۔

کچھ عرصہ تک انھیں بس کہنے کا موقع دیجیے، انھیں بس اپنے دکھ بانٹنے کا موقع دیجیے۔ اس کے بعد انھیں اس دکھ کے اثر سے نکالنے کی کوشش کیجیے۔ ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں واپس سیدھی ڈگر پہ لانے کی کوشش کیجیے۔

اگر آپ کی کوششیں ناکام ہو جائیں اور وہ کسی شدید عارضے کا شکار ہوں تو انھیں کسی اچھے ماہر نفسیات کے پاس لے جائیے۔ انھیں علاج کا موقع دیجیے، انھیں اپنے اندر موجود خرابی کو درست کرنے کا موقع دیجیے۔ ان پہ برا ہونے کا لیبل لگا کر ان کی زندگی مزید مشکل مت کیجیے۔

اس کے علاوہ والدین کو اپنے رویے پہ نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں بچوں کی تربیت میں مشکل ہو وہاں اس کے متعلق اچھا مواد پڑھ لیں یا کسی نفسیاتی کونسلر سے معلومات لے لیں۔ اچھے والدین بنیں، اچھی نسل کو پروان چڑھائیں۔

اپنا بچپن کا ٹراما، اپنے نفسیاتی عارضے اپنے بچوں میں مت منتقل کیجیے۔ اگر آپ کسی نفسیاتی عارضے کا شکار ہیں تو بروقت علاج کروا لیجیے تاکہ آپ کے بچے آپ والی تکلیف سے نہ گزریں۔

آخری بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی بھی قسم کے بچپن کے ٹراما کا شکار رہے ہیں۔ کسی قسم کے نفسیاتی، جنسی یا جسمانی عارضے میں پھنسے ہوئے ہیں تو کسی سے مدد لے لیجیے۔ یہ احساس جگائیے کہ آپ کو اس ابنارمل رویے سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ آپ بھی خوشیوں پہ اتنا ہی حق رکھتے ہیں، جتنا کوئی بھی دوسرا انسان۔ کوئی اور نہیں ملتا تو میں ڈاکٹر نوید خالد آپ کو یہ سہولت دیتا ہوں کہ آئیے اور میرے ساتھ اپنی تکلیف بانٹ لیجیے۔ مجھے بتائیے کہ آپ کس مشکل سے گزر رہے ہیں۔ ہم دونوں مل کر اس تکلیف کا حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔ نہ نکال سکے تو رازداری سے کسی ماہر نفسیات کی مدد لینے کی کوشش کریں گے یا کسی دوائی کے استعمال سے بہتری آ سکتی ہوئی تو وہ استعمال کر کے دیکھ لیں گے۔

آپ اپنا بوجھ کم کیجیے، کوئی اپنا میسر ہے تو اس سے۔ کوئی میسر نہیں تو مجھ سے بانٹ لیجیے۔ میں آپ کو برا نہیں سمجھوں گا، میں آپ کی باتوں کا رازدار رہوں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن کسی بھی طرح اس ٹراما کے اثر سے نکل آئیے تاکہ زندگی کے اصل رنگ دیکھ سکیں، زندگی کا اصل لطف لے سکیں۔ تاکہ آپ اس بے ہنگم معاشرے کا مثبت انداز میں حصہ بن پائیں، تاکہ آپ کی آنے والی نسلیں اچھی پرورش لے سکیں، سکون پا سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply