برین ڈرین (3)-محمد اسد شاہ

برین ڈرین کی تیسری قسط لکھنے میں تاخیر پر میں قارئین سے معذرت خواہ ہوں- اس غیر حاضری کی وجہ بعض ناگزیر گھریلو اور ذاتی مصروفیات تھیں-

 

 

 

 

 

اب جیسے ہی فرصت ملی ہے تو کالم مکمل کیا ہے – میں نے برین ڈرین کی دوسری قسط میں بتایا کہ پاکستان میں فاطمہ جناح سے مریم نواز شریف تک، سیاست دانوں نے بہت سختیاں اور جبر برداشت کیے- میاں محمد نواز شریف کو کن حالات سے گزرنا پڑا، اس بات پر گزشتہ کالم رک گیا تھا – 1996 سے 2022 تک، ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا کہ ان پر، ان کے خاندان کے افراد پر جھوٹے مقدمات نہ چل رہے ہوں- وزیر اعظم ہاؤس میں ہتھیار دکھا کر انھیں دھمکی دی گئی کہ اپنے استعفیٰ کے کاغذ پر دست خط کریں، لیکن انھوں نے انکار کیا- عوام کا منتخب وزیر اعظم ہوتے ہوئے انھیں ہوائی جہاز کی سیٹ کے ساتھ زنجیروں سے باندھا گیا، آہنی پنجرے میں قید کر کے انھیں کراچی کی سڑکوں پر گھمایا گیا- جنرل پرویز کا تو پورا دور میاں صاحب، ان کے خاندان اور جماعت کے خلاف بدترین مظالم سے عبارت ہے- ان کی بیوی، بیٹیوں، بیٹوں، بہوؤں ، داماد، نواسوں ، نواسیوں، پوتوں اور پوتیوں تک کو سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں مری کے ریسٹ ہاوسز میں بند رکھا گیا- انھیں جلاوطن کیا گیا- تیسری بار وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی انھیں، ان کی بیٹی اور بیٹوں کو ان کے ذاتی دشمنوں اور ملازموں کے سامنے پیشیاں بھگتنے پر مجبور کیا گیا- وزیراعظم ہوتے ہوئے ان کے خلاف دنیا کا بدترین اور طویل ترین میڈیا ٹرائل کیا گیا- حتیٰ کہ اس کالم کی اشاعت کے وقت بھی وہ درحقیقت جلا وطنی ہی بھگت رہے ہیں- بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں ان سب سیاسی راہ نماؤں کے چاہنے والے بھی ہمیشہ موجود رہے ہیں- 1977 سے 1988 تک وہ وقت تھا کہ لیبیا سمیت عرب ممالک سے یورپ تک تقریباً تمام اوورسیز پاکستانی ذوالفقار علی بھٹو کے دیوانے تھے- اسی طرح خصوصاً 1995 سے 2005 تک تقریباً تمام اوورسیز پاکستانیوں میں میاں محمد نواز شریف مقبول ترین سیاسی قائد رہے- لیکن اتنی سختیوں، تحقیر آمیز سلوک اور تشدد کے باوجود ان سیاسی قائدین نے اپنے کارکنان کو ایسی کوئی ترغیب کبھی نہیں دی کہ جس سے پاکستان کی عزت پر حرف آئے- ان میں سے کسی نے کبھی اپنے وطن کے خلاف عالمی عدالت میں کوئی درخواست بھی نہیں دی- ان کے چاہنے والوں نے بھی ترسیلات زر میں کمی کر کے ملک کو معاشی نقصان پہنچانے کا کبھی نہیں سوچا، ملکی پرچم کبھی نہیں جلایا، ملک کے خلاف دوسرے ممالک میں مظاہرے کبھی نہیں کیے، پاسپورٹ کبھی نہیں پھاڑے- لیکن اب یاد کیجیے کہ 2014 میں ایک شخص نے اسلام آباد کے ریڈ زون میں کھڑے ہو کر اپنے اوورسیز سپورٹرز کو کھلم کھلا ہدایات جاری کیں کہ “پاکستان کی طرف ڈالرز مت بھیجو، اور اگر اپنے گھر والوں کے لیے بھیجو تو بینکوں اور قانونی راستوں سے مت بھیجو ، بل کہ ہنڈی کے ذریعے بھیجو، ٹیکس مت دو، بجلی کے بل ادا نہ کرو، سول نافرمانی شروع کرو!” حال آں کہ اس شخص نے کبھی وہ حالات نہیں دیکھے جن سے بھٹو خاندان اور شریف خاندان گزرے ہیں- افسوس یہ کہ اس شخص کے دیوانوں نے سوچے سمجھے بناء اس کی ہدایت پر عمل بھی کیا- سیاست دانوں اور مختلف طبقات کو تقریباً ہر ملک میں مشکل اوقات سے گزرنا پڑتا ہے، لیکن اپنے وطن کے ساتھ دشمنی کا راستہ نہیں اپنایا جاتا- حیرت اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایک پاکستانی سیاست دان کے چاہنے والوں نے یہ رویہ سالہا سال سے اپنا رکھا ہے، اور اس رویئے کا ان کے پاس کوئی جواز بھی نہیں ہے- 2014 میں بھلا ریاست نے اس سیاست دان پر کون سا ظلم کیا تھا کہ اس نے ایسی ہدایات اپنے پیروکاروں کو جاری کیں، اور اس کے پیروکاروں نے بھی ان پر عمل کیوں کیا؟ اب تو اس سیاسی لیڈر نے عالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف مقدمہ بھی دائر کر دیا ہے ——-

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کی حکومت پاکستانی تاریخ کی واحد حکومت ہے جو عین جمہوری، آئینی اور سیاسی طریقے سے ختم ہوئی- لیکن اس پر بھی اس کے پیروکاروں نے دنیا بھر میں کتنا گند مچایا- یہ لوگ پاکستانی پرچم کو جلاتے رہے، پاکستانی پاسپورٹ کو گالیاں دے دے کر پھاڑتے رہے، پاکستانی آرمی چیف کی تصاویر اٹھا کر یورپ میں مظاہرے کرتے اور گالیاں بکتے رہے، اور اپنی ان تمام بدکاریوں کی وڈیوز بنا بنا کر وائرل کرتے رہے- پاکستانی سیاست دانوں، حتیٰ کہ خواتین تک پر گالیاں بکتے، پیچھا کرتے، پتھراؤ کرتے رہے- یہ کس قسم کے محب وطن ہیں؟ کیا انھیں اپنے وطن اور اپنے سیاسی لیڈر میں سے ایک کو منتخب کرنا پڑے تو وہ وطن کو چھوڑ دیں گے؟ یہ کس قسم کے کارکنان ہیں جنھوں نے دنیا بھر میں اپنے ہی ملک کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا کیا- افریقہ کے کئی ممالک میں آمریتیں ہیں، میانمار میں بھی فوجی آمریت ہے- ان ممالک کے مقبول ترین عوامی قائدین جیلوں میں ہیں- ان کے حامی بھی عرب امارات، یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں موجود ہیں- لیکن وہ اپنے سیاسی تعصبات کو اپنے آبائی ممالک کے خلاف استعمال نہیں کرتے- یورپ کی سڑکوں پر ایک مخصوص سیاست دان کے کارکنان نے جس جہالت کے مظاہرے کیے، اس کی کوئی مثال کسی اور ملک کے شہریوں سے نہیں ملتی- پھر ان کارکنان نے تو مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم جیسی مقدس و مطہر جگہ کو بھی نہیں چھوڑا- آپ کو یاد ہو گا کہ گزشتہ سال ان لوگوں نے اس مقدس مقام پر کس قسم کی گھٹیا، شرم ناک اور گندے الفاظ میں نعرے بازی کی اور عمرہ کرتے وزیراعظم پاکستان، اور خواتین و حضرات وزراء پر جسمانی حملے بھی کیے-
میں اس کالم کی دوسری قسط میں بھارت میں ہونے والے سیاسی جھگڑوں کی ایک بڑی مثال دے چکا ہوں- بھارتی دنیا کے تقریباً ہر ملک میں موجود ہیں، اہم کاروباری ان کے ہاتھوں میں ہیں، وہاں سیاسی اثر و رسوخ بھی انھیں حاصل ہے، بعض انتہائی اہم مناصب پر بھی وہ فائز ہیں – لیکن وہ ان ممالک میں اپنے ملک کے سفیر بن کر رہتے ہیں- مودی جیسا مجرمانہ کردار کا شخص دو ماہ قبل جب امریکا گیا تو بھارتی امریکیوں نے کمال کر دیا- حتیٰ کہ اس دورے کی آخری رات امریکی ارکان کانگریس کو پندرہ مرتبہ کھڑے ہو کر مودی کو خراج تحسین پیش کرنا پڑا- اسی سال مئی میں آسٹریلیا میں مودی کی استقبالیہ ریلی میں بیس ہزار سے زیادہ بھارتی تارکین وطن نے شرکت کر کے آسٹریلوی حکومت اور عوام کے دلوں میں اپنے وطن کی دھاک بٹھا دی- اسی طرح پیرس، قاہرہ اور نیویارک میں بھی بھارتی تارکین وطن نے بھارتی وزیراعظم کا فقید المثال استقبال کر کے دنیا بھر میں اپنے ملک کا نام بلند کیا- گزشتہ ماہ فرانس میں سالانہ سرکاری پریڈ میں نریندرا مودی کو مہمان خصوصی بنایا گیا- یہ مودی کی ذاتی کامیابی نہیں، بل کہ بھارتی تارکین کی اپنے وطن سے محبت ہے جس نے دنیا بھر میں بھارت کی تصویر میں رنگ بھر دیئے- آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہی ملک کے تارکین، جن کی ہمدردیاں ایک مخصوص سیاست دان سے وابستہ ہیں، اپنے وطن کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں؟ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر دنیا بھر میں اپنے وطن کو بدنام کرنا کہاں کا اصول اور کہاں کہ انسانیت ہے؟ ہم نے ہمیشہ یہی جانا کہ پاکستانی تارکین وطن کے دل وطن کی محبت میں دھڑکتے ہیں- لیکن افسوس، گزشتہ 10 سالوں میں ہمارے اس تیقن کی دیواریں منہدم کر دی گئی ہیں-

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply