برین ڈرین (2)-محمد اسد شاہ

سکھوں کی اس مسلسل ناراضی کو سمجھنے کے لیے تقسیم ہند، اور قیام بھارت کے بعد کی ساری تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا- تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کی طرح سکھ بھی بوقتِ تقسیم اپنی الگ شناخت چاہتے تھے، لیکن ہندو سیاست دانوں نے بڑی چالاکی و عیاری سے نہ صرف انھیں اپنے ساتھ ملائے رکھا، بل کہ ان کے احساس محرومی اور اشتعال کا رخ بھی مسلمانوں کی طرف موڑ دیا- یہی وجہ ہے کہ 1947 میں ہندوستان کے خاتمے، اور دو نئے ممالک یعنی بھارت اور پاکستان کے قیام کے وقت نئی ابھرنے والی سرحد کے طرفین میں جو قتل و غارت ہوئی، اس میں سب سے بڑا اور خوف ناک کردار سکھ انتہا پسندوں نے ادا کیا، جب کہ سکھوں کے ساتھ تو کسی بھی معاملے میں مسلمانوں کا کوئی اختلاف یا جھگڑا نہ تھا- وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکھوں کی قیادت کو اپنی غلطیوں اور ہندو تؤا کے متعصابہ رویوں کا احساس ہونے لگا جو آہستہ آہستہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا- اس تحریک نے جب شدت پکڑی تو یہ مطالبہ کیا گیا کہ سکھ اکثریتی علاقوں خصوصاً پنجاب کو بھارت سے الگ کر کے ایک نیا ملک خالصتان قائم کیا جائے- ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ بھارتی حکومت کے لیے ناقابلِ برداشت تھا- اس کو دبانے کے لیے سختیوں کا آغاز کر دیا گیا- جواباً بعض سکھ نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا لیے- جتھے دار جرنیل سنگھ بھنڈراں والا اس حوالے سے ایک بہت بڑا نام بن کر سامنے آیا- جرنیل سنگھ بھنڈراں والا اور اس کے ساتھیوں کے خلاف حکومتی سختیاں بڑھیں تو جولائی 1982 میں سکھوں کی سیاسی جماعت شیرومانی اکالی دل کے صدر ہرچند لونگووال سنگھ نے جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کو دعوت دی کہ وہ ہرمندر صاحب امرتسر میں واقع سکھوں کی بہت بڑی عبادت گاہ “گولڈن ٹیمپل” میں رہائش پذیر ہو جائیں- سکھوں کو یقین تھا کہ بھارتی حکومت، پولیس اور فوج گولڈن ٹیمپل پر کبھی چھاپہ نہیں ماریں گے- لیکن بھنڈراں والا سمیت دیگر مطلوب افراد کی گرفتاری کے لیے وزیراعظم اندرا گاندھی کے حکم پر یکم جون 1984 کو بھارتی فوج نے گولڈن ٹیمپل کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا- سابق بھارتی وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل ایس کے سنہا کے مطابق اس آپریشن کے لیے اندرا گاندھی نے خفیہ طور پر 18 ماہ قبل ہی بھارتی فوج کو مکمل اختیار دے دیا تھا- سکھوں کی غیر متوقع اور شدید مزاحمت کی وجہ سے خون خرابے سے بھرپور یہ آپریشن 9 دن تک، یعنی یکم سے 10 جون 1984 تک جاری رہا- اس دوران جرنیل سنگھ بھنڈراں والا اپنے بہت سے ساتھیوں سمیت مارا گیا- سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس آپریشن میں 554 افراد ہلاک ہوئے جن میں 89 بھارتی فوجی اور باقی سب سکھ انتہا پسند تھے- 1592 سکھ انتہا پسندوں کو زندہ گرفتار بھی کیا گیا- جب کہ آزاد عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ہلاکتوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ تھی- یہ وہ سانحہ تھا جس کے بعد سکھوں اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کبھی خوش گوار نہیں ہو سکے- بھارتی فوجی یونٹوں سے ہزاروں سکھوں نے استعفیٰ دے دیا- بہت سے سکھ افسران نے سول انتظامی مناصب چھوڑ دیئے اور سرکاری تمغے اور میڈلز واپس کر دیئے- صرف 5 ہی ماہ بعد 31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو ان کے اپنے ہی محافظ دستے میں شامل دو سکھوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے سرکاری اسلحے سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا- آپریشن گولڈن ٹیمپل کے بعد سکھوں نے خالصتان تحریک کو دنیا بھر میں پھیلا دیا- لیکن اس سب کے باوجود سکھوں نے اپنے ملک بھارت کے خلاف کبھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے ملک کی معاشی حالت خراب ہو- انھیں معلوم ہے کہ سر دست بھارت ہی ان کا وطن ہے- دنیا بھر میں پھیلے سکھ اتنا کثیر زرمبادلہ بھارت کو بھجواتے ہیں کہ اس وقت دنیا کے 200 سے زیادہ ممالک میں ترسیلات زر وصول کرنے والا سب سے بڑا ملک بھارت ہے- دنیا بھر کی کل ترسیلات زر کا 12 فی صد بھارت منتقل ہوتا ہے- منسٹری آف اوورسیز انڈین افیئرز کے مطابق گزشتہ مالی سال یعنی 2022 میں دوسرے ممالک میں مقیم بھارتیوں نے اپنے ملک کو 110 بلین امریکی ڈالرز بھیجے، جو ایک عالمی ریکارڈ ہے- یہ بات ذہن میں رہے کہ بیرون ملک کام کرنے والے بھارتیوں میں سب سے بڑی تعداد سکھوں کی ہے، اور ان سکھوں کی غالب اکثریت وہ ہے جو 1984 کے سانحہ گولڈن ٹیمپل کے بعد سوگ وار دلوں کے ساتھ ملک چھوڑ گئے-

Advertisements
julia rana solicitors

اب ہم واپس اپنے ملک پاکستان کی بات کرتے ہیں- ہمارے یہاں سے جا کر دیار غیر میں آباد ہونے والے پاکستانیوں کو ایسا کون سا صدمہ یا تکلیف پہنچی ہے کہ وہ ترسیلات زر میں کمی کیے جا رہے ہیں- پاکستان میں ایک سیاسی جماعت نے باقاعدہ بیرون ملک آباد پاکستانیوں کو ملک سے مایوس اور متنفر کیا ہے- ان اوورسیز پاکستانیوں نے ایسا دکھ کبھی نہیں دیکھا جیسا بھارتی سکھوں نے 1984 میں دیکھا- تقریباً تمام جمہوری اور نیم جمہوری ممالک میں سیاسی اقتدار کی چپقلش ہوا کرتی ہے لیکن ایسی کون سی تکلیف ہے کہ اپنے ملک کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے ایجنڈے پر چلا جائے؟ بانی پاکستان محمد علی جناح کی وفات مبینہ طور پر مشکوک حالات میں ہوئی- ان کی ہم شیرہ اور سیاسی رفیقہ ڈینٹل سرجن فاطمہ جناح کو کھلم کھلا دھاندلی اور غنڈہ گردی کے ذریعے ایوان صدر سے دور رکھا گیا اور پھر ایک رات اچانک ان کی وفات ہو گئی- بعد میں بہت سے لوگوں نے لکھا کہ ڈاکٹر فاطمہ جناح کو دراصل قتل کیا گیا تھا- پھر ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا ہؤا؟ آج تک کی 76 سالہ ملکی تاریخ کے مقبول ترین لیڈر بھٹو کو عدالتی قتل کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے پورے خاندان کو در بہ در ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا گیا- ان کی بیوہ دیار غیر میں مری، ان کے ایک بیٹے کو فرانس میں قتل کیا گیا اور دوسرے کو کراچی کی سڑک پر گولی سے اڑا دیا گیا- ان کی بیٹی بے نظیر دو بار وزیر اعظم منتخب ہوئی، لیکن دونو مرتبہ اسے مدت مکمل کرنے نہیں دی گئی- بے نظیر اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو بھی جیلوں میں قید بھگتنا پڑی- حتیٰ کہ 2007 میں راول پنڈی کے لیاقت باغ کے باہر انھیں مجمع عام میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا- اس قوم نے میاں محمد نواز شریف کو تین مرتبہ بہت محبت اور امیدوں کے ساتھ وزارتِ عظمیٰ کے لیے منتخب کیا گیا- لیکن میاں صاحب کو ایک بار بھی اپنی آئینی مدت مکمل کرنے نہیں دی گئی- دو بار ان پر قاتلانہ حملے ہوئے، ایک بار جب وہ وزیراعظم تھے اور اپنی سرکاری گاڑی میں رائے ونڈ کے ایک پل سے گزر رہے تھے، اور دوسری بار 2007 میں جب وہ راول پنڈی میں انتخابی جلوس کی قیادت کر رہے تھے- یہ وہی دن تھا جب بے نظیر بھٹو کو بھی قتل کر دیا گیا- میاں صاحب کے خلاف جھوٹے مقدمات کی بھرمار کی گئی- ہماری تاریخ میں سب سے طویل اور سنگین ترین انتقامی کارروائیوں کا نشانہ میاں صاحب کو بنایا گیا- (جاری ہے)

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply