• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرونا اور ہمارا قومی رویہ۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

کرونا اور ہمارا قومی رویہ۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

کرونا کی آندھی شدت اختیار کر گئی ہے، ہفتے عشرے سے روزانہ اوسطاً پانچ ہزار نئے کیس ملک بھر سے سامنے آ رہے ہیں۔ اموات کی شرح باقی دنیا کی نسبت انتہائی کم ہے لیکن بہرحال بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں بطور قوم ہمارا رویہ افسوسناک حد تک غیرذمہ دارانہ ہے۔

سب سے پہلے اربابِ اختیار اور اُن میں بھی اپنے ہینڈسم وزیراعظم  کے رویے کی بات کرتے ہیں۔ پہلے دن سے ہی بجائے سامنے سے آ کے قوم کی رہنمائی کرتے، اُلٹا ٹیلی ویژن پر آ کے قوم کو بے تکے لیکچر دیتے پائے گئے۔ وزیرِاعظم کے چند ایک بیانات ملاحظہ کیجیے اور دیکھیے کہ یہ کسی رہنما کے  بیانات ہیں یا  کسی ایسے شخص کے جو خود الجھن میں ہے اور معاملے کی  نزاکت کو نہ تو خود سمجھتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی  مزید الجھانے کا باعث بنتا ہے۔

وزیر اعظم نے   کرونا سے  متعلق غالباً اپنے پہلے خطاب میں فرمایا کہ “اگر آپ کو نزلہ زکام ہو جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو کرونا ہو گیا ہے اور خدا کے واسطے تھوڑی سی چیز پہ ساری قوم اپنا ٹیسٹ کروانے نہ دوڑ پڑے” اور اس کے بعد اپنا وہ مشہورِ زمانہ قول دہرایا جس پہ اِن دو سالوں میں  اُن کا سب سے زیادہ مذاق اڑایا گیا اور وہ تھا کہ “آپ نے سب سے پہلے گھبرانا نہیں ہے”۔

مجھے اتفاق ہے کہ گھبراہٹ طاری کرنے سے معاملہ زیادہ بگڑ جاتا ہے اور گھبراہٹ طاری نہیں کرنی چاہیے لیکن طبی ماہرین کا اتفاق ہے کہ بخار، نزلہ کھانسی اور گلہ خراب ہونا اس وائرس کی ابتدائی علامات ہیں،  لہٰذا آجکل اگر کسی کو نزلہ کھانسی یا بخار ہو تو اُسے عام دنوں کے نزلہ کھانسی یا بخار کی طرح ٹریٹ نہ کیا جائے بلکہ خود کو دوسروں سے الگ تھلگ کر لیا جائے تا کہ اگر یہ عام نزلہ زکام نہیں ہے تو باقی لوگوں میں منتقل نہ ہو سکے لیکن وزیرِاعظم نے قوم کو ٹی وی پہ درس دیا کہ نزلہ زکام کا مطلب کرونا نہیں ہے۔ وزیرِاعظم  دہائی دیتے رہے کہ لاک ڈاؤن مسئلے کا حل نہیں ہے اور وہ شروع سے ہی لاک ڈاؤن کے مخالف ہیں، اس کے باوجود ملک میں لاک ڈاؤن ہو گیا۔ جس سانس میں وزیراعظم نے  فرمایا کہ وہ لاک ڈاؤن کے مخالف ہیں، اُسی سانس میں فرمایا کہ وہ رضاکار ٹائیگر فورس تشکیل دے رہے ہیں جو لاک ڈاؤن کے دنوں میں عوام تک راشن پہنچائیں گے۔ پھر فرمایا کہ جس طرح کا لاک ڈاؤن میں چاہتا تھا اُس طرح کا لاک ڈاؤن ہو نہیں سکا۔

ارشاد ہوا کہ عوام کو بارہ ہزار روپے دیں گے اور پھر فرمانِ تازہ ارشاد ہوا کہ عوام کو دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔  پہلے فرمایا کہ صورتحال کنٹرول میں ہے اور پھر ارشاد فرمایا کہ میں  نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وائرس پھیلے “گی” اور  اموات ہوں گی۔    پہلے لیکچر دیا کہ عوام احتیاط کریں اور گھروں میں رہیں اور پھر فرمان صادر ہوا کہ سیاحتی مقامات کو کھول رہے ہیں۔ خلق حیران تھی کہ پہلے فرمان پر عمل کر کے گھر رہا جائے یا دوسرے پہ عمل کرتے ہوئے سیاحت کی جائے۔  آپ خود اندازہ لگائیے کہ ایسا کنفیوژن سے بھرپور رہنما عوام کی کیا رہنمائی کرے گا؟۔

انتظامیہ کا رویہ بھی مایوس کُن رہا۔ ایران سے آنے والے زائرین کو ظاہر ہے ملک واپس لانا ہی تھا کہ جب پڑوسی ملک اُنہیں قرنطینہ سہولیات دے کر رکھنے کے لیے تیار نہیں تھا تو اُنہیں ملک آنے سے روکا نہیں جا سکتا تھا لیکن بارڈر پر قرنطینہ سنٹروں کے نام پر جو بے ہودہ حکومتی انتظامات  کیے گئے وہ وائرس کو روکنے کی بجائے پھیلانے ہی کا سبب بنے اور پھر  بغیر کوئی ریکارڈ رکھے زائرین کو ملک بھر میں جہاں جہاں سے اُن کا تعلق تھا وہاں وہاں جانے دیا گیا۔ اسی طرح انتظامیہ کی جانب سے تبلیغی اجتماع کو بروقت روکا نہیں گیا لہٰذا  تبلیغی بھائیوں نے بھی اجتماع سے وائرس کو ملک بھر میں پھیلانے میں اپنا  بھرپور کردار ادا کیا۔ پرلے درجے کی اِن انتظامی بےاحتیاطیوں نے  وائرس کو تفتان سے کراچی اور کراچی سے گلگت تک پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

اب آئیے قاضی القضا کی جانب، موصوف نے پہلے بازاروں اور شاپنگ مالز کو کھولنے کا حکم جاری کیا اور پھر انتظامیہ کو ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والے تاجروں کی دکانیں سیل کرنے سے بھی روک دیا۔ ملک کے سب سے بڑے قاضی نے انتظامی معاملات میں برہنہ مداخلت کرتے ہوئے نہ صرف بازاروں کے اوقاتِ کار کا تعین بھی خود کیا بلکہ یہ بھی فرمایا کہ اگر آپ نے عید پہ نئے کپڑے نہیں پہننے تو دوسروں کو تو پہننے دیں۔ اور یہ فیصلہ اُس عدالت نے دیا جو اس سے قبل کرونا سے بچنے کے پیشِ نظر عدالت میں وکلاء، سائلین اور آدھے سے زیادہ عدالتی عملے کی بھی عدالت میں داخلے پر پابندی لگا چکی تھی جو اب بھی کسی نہ کسی سطح پر برقرار ہے۔ بجائے اس کے کہ جناب چیف جسٹس عوام میں شعور بیدار کرنے میں اپنا حصہ ڈالتے کہ عوام اس بار عید سادگی سے منائے، بازاروں میں رش ڈالنے سے پرہیز کرے تا کہ وائرس کا پھیلاؤ کم سے کم ہو، اس کے برعکس اُن کا فرمان ملک میں وائرس کے پھیلاؤ کاسب سے زیادہ ذریعہ بنا۔

حکومت نے پہلے مساجد اور مذہبی اجتماعات پر بھی پابندی لگائی جس پر علماء بادل نخواستہ آمادہ ہوئے ، رمضان کی آمد پر جامع ایس او پیز کے ساتھ مساجد میں نمازوں کی اجازت دی گئی۔ ملک بھر میں عمومی طور پر مساجد میں اُن ایس او پیز پر عمل ہوتا رہا اور کسی نہ کسی درجے میں اب بھی زیادہ تر مساجد میں اس پر عمل ہو رہا ہے لیکن یومِ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جلوسوں کی اجازت دے کر انتظامیہ نے مساجد میں ایس او پیز پر عملدرآمد کے عمل کو ازخود سبوتاژ کیا اور علماء کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ علی الاعلان حکومتی احکامات کو جوتیوں کی نوک پر رکھنے کے اعلانات کرتے پائے گئے۔  مجموعی طور پر حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کے حوالے سے علما کا کردار اس پوری صورتحال میں مثبت رہا لیکن روایتی مذہبی طبقہ بہرحال قوم کو منبرو محراب سے رہنمائی دینے میں ناکام رہا ۔

اب آئیے میری اور آپ کی جانب، عوام کی جانب تو معاملہ اور بھی سنگین نظر آتا ہے۔ عوام کی ایک غالب اکثریت سرے سے کرونا کے وجود سے ہی انکاری ہے۔ جو اس کے وجود کا اقرار کرتے ہیں، بظاہر معقول اور پڑھے لکھے لوگ وہ بھی اس کے ساتھ اگر مگر لگاتے ہیں اور اسے  سازش  قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بازار کھولے گئے تو عوام بازاروں میں ایسے ٹوٹ کے پڑی جیسے کبھی بازار دیکھے ہی نہ ہوں اور عید کی خریداری ایسے کرنے  نکلی جیسے عید پر نئے کپڑے نہ پہنے تو شاید فوت ہی ہو جائیں گے۔ بازاروں میں رش دیکھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے مفت اشیاء بٹ رہی ہوں۔ اور کرونا کی یہ شدید لہر اسی عید شاپنگ کا شاخسانہ ہے کہ عید کے بعد اب ہر دوسرا شخص اس وبا کی لپیٹ میں ہے۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا عالم یہ ہے کہ اسلام آباد میں تو لوگ ماسک پہنے ہوئے اور کسی حد تک سماجی فاصلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں، راولپنڈی میں بھی اور بڑے شہروں کے نسبتاً پڑھے لکھے علاقوں کی عوام پھر بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرتی نظر آتی ہے جبکہ باقی جگہوں کا حال کچھ ایسا ہے کہ لوگ جان بوجھ کر ایک دوسرے سے گلے ہی نہیں مل رہے بلکہ باقاعدہ کرونا کا مذاق اڑاتے ہوئے گھُٹ گھُٹ کے جپھیاں بھی ڈال رہے ہیں۔ دوردراز کے دیہی علاقوں اور خیبر پختونخوا سے دوست بتاتے ہیں کہ ان علاقوں میں کوئی احتیاطی تدابیر اختیار کیے ہوئے نظر آئے تو لوگ باقاعدہ اُس کا مذاق اڑاتے ہیں کہ اسے دیکھو، یہ زیادہ احتیاطیں کر رہا ہے۔ ایسے میں جو لوگ احتیاط کرنا چاہتے ہیں وہ بھی احتیاط نہیں کر پاتے۔   عوام  اس بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتی کہ کرونا کوئی حقیقت ہے۔ کچھ دن پہلے تک لوگ طنزاً اور مذاقاً ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ تمہارے کسی جان پہچان والے کو بھی کرونا ہے اور اب جب کہ ہر دوسرا بندہ اس وائرس سے متاثر ہے تب بھی لوگ اس کو سنجیدہ لینے سے انکاری ہیں۔ اگر یہ سازش کے طور پر بھی پھیلایا گیا ہے (میں ذاتی طور پر اس حوالے سے کسی سازشی نظریئے پر یقین  نہیں رکھتا کہ ایسی تھیوریوں پر یقین کرنے کے لیے کوئی معقول دلیل نظر ہی نہیں آتی) تب بھی عوام کو سمجھنا ہو گا کہ اب یہ حقیقتاً پھیل چکا ہے، اس سے بچنے کا واحد حل احتیاط اور سماجی فاصلہ ہی ہے۔ اگر یہ ڈرامہ بھی ہے تب بھی میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ساری دنیا اس ڈرامے کا حصہ کیسے بن سکتی ہے۔ عالمی امداد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے تب بھی جتنا معیشت کا نقصان ہو رہا ہے، اُس کے مقابلے میں کتنی امداد ہمیں مل جائے گی؟ اب جبکہ لاک داؤن عملاً مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے اور بیرونِ ملک سے آنے والوں پر بھی اڑتالیس گھنتے تک  قرنطینہ میں رکھنے کی شرط ختم کر دی گئی ہے اور اگر وہ وائرس کا شکار ہیں تب بھی اُن کو بغیر ٹیسٹ کیے اُن کے آبائی علاقوں تک جانے کی اجازت دے دی گئی ہے تو ایسے میں عوام کا اس وبا کو سنجیدہ لینا بے حد ضروری ہو گیا  ہے، عوام کو خود ہی احتیاط کر کے اس وائرس سے بچنا ہے کوئی انہیں آ کر نہیں بچائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بطور قوم اوپر سے لے کر نیچے تک ہمارے مجموعی رویے نے اس وبا کے مقابلے میں ہماری ژولیدہ فکری کو عیاں کیا ہے۔ عوام تو کالانعام ہوتے ہیں، قیادت کا بالغ نظر ہونا بھی بےحد ضروری ہے اور یہاں عالم یہ ہے  کہ وزیراعظم عوام کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ احتیاط کریں، ماسک پہنیں، سماجی فاصلہ برقرار رکھیں اور خود نہ وہ پریس سے بات کرتے ہوئے ماسک پہنے نظر آتے ہیں، نہ ہی اجلاسوں اور ملاقاتوں کے وقت ایسی کوئی احتیاط اختیار کیے ہوئے نظر آتے ہیں۔اربابِ اختیار  کی میڈیا ٹاکس میں بھی سماجی فاصلہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے، ایسے میں عوام سے یہ توقع کہ وہ خود ہی احتیاط کریں گے، پرلے درجے کی حماقت ہے۔رہنما جیسا رویہ اپنائیں گے تو عربی مقولہ ہے کہ الناسُ علیٰ دینِ ملوکہم۔۔۔ پھر عوام سے کیسا گِلہ!

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply