پھر کیا کرنا چاہیے؟۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

معاشی نظام دو ہی طرح کے ہیں ایک سرمایہ دارانہ اور ایک اشتمالی یا بہت حد تک کہا جائے تو اشتراکی، باقی جو بھی نام لیا جائے گا وہ انہی  دو میں سے ایک  کا ذیلی ورژن ہوگا۔ ہم سرمایہ دارانہ نظام کے شاکی ہیں کہ یہ نظام منافع خوری اور استحصال پر استوار ہے۔ دوسری جانب ہم یورپ امریکہ کی مثالیں دیتے ہیں جو سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے مراکز ہیں۔ ہم میں بہت سے جو مذکورہ نظام سے نالاں ہیں، اس کا متبادل نظام یعنی اشتمالی یا اشتراکی نظام معیشت لائے جانے کے خواہشمند ہیں مگر ایک تو حاوی سرمایہ دارانہ نظام کے جلّی اور خفی حامیوں بشمول دانشوروں، سیاست دانوں اور خاص طور پر مذہب سے وابستہ سیاسی جماعتوں اور مذہب پر پلنے والے ملاؤں نے اسے الحاد سے پیوست کرکے بے حد بدنام کر دیا ہے، دوسرے ایسا نظام لائے جانے کی خاطر اس کے مخالفوں کو اگر عملاً ختم نہیں کرنا ہوگا تو انہیں ذلیل و خوار ضرور کرنا ہوگا تاکہ کوئی اس نظام کی مخالفت نہ کر سکے ،جیسے حاوی نظام سرمایہ داری کے زعماء نے یہ کام کہیں مذہب والوں سے، تو کہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے، تو کہیں طاقت کے حامل اداروں سے کروایا ہے اور کرواتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ اس نظام میں تمام لوگوں کو تقریباً ایک سی سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش میں تنوع اور جدت پسندی غائب ہو جاتی ہے جو انسانوں جیسی تنوع پسند مخلوق پر گراں گزرتی ہے۔

سیاسی نظام، جمہوریت، آمریت، مطلق العنانیت، بادشاہت، آئینی بادشاہت بمع جمہوریت وغیرہ وغیرہ ہیں مطلب یہ کہ یہ نظام بھی بنیادی طور پر دو طرح کے ہیں یعنی جمہوریت اور ضد جمہوریت۔ جمہوریت کے لیے ہم فرانس، برطانیہ، جرمنی، امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کی تعریف کرتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں یا جانتے ہی نہیں کہ انہیں اس نوع کی بہتر، یاد رہے بہترین وہ بھی نہیں، جمہوریت رائج کرنے کی خاطر کن کن اور کیسے کیسے ادوار سے گزرنا پڑا اور اس سارے عمل میں کتنے سال نہیں بلکہ کتنی صدیاں صرف ہوئیں۔ ہم آمریت سے کئی بار ڈسے ہوئے ہیں لیکن سیاستدانوں اور لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہے جو نئے آمر کو نہ صرف خوش آمدید  کہنے کو تیار ہوتی ہے بلکہ آمریت سے وابستہ ادارے کے زعماء کو راغب بھی کرتی ہے اور عنان اقتدار ہاتھ میں لینے کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ بادشاہت ایک طرف ہمیں بھاتی نہیں دوسری جانب سعودی عرب ہمارا آئیڈیل رہتا ہے تیسری جانب گردن مارے جانے، انتہائی نگہبانی کیے جانے سے بھی خائف ہیں۔ آئینی بادشاہت کا تصور جمہوریت کے مضبوط ہو جانے کے ساتھ کسی ملک میں موجود بادشاہ کو جس نے جمہوریت کو فروغ دینے میں بھی تعاون کیا ہو، تعظیم دیے جانے سے وابستہ ہے چنانچہ اس سے ہمارا کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔

سماجی نظام بھی دو ہی طرح کے ہوتے ہیں سیکولر اور مذہبی۔ قدامت پسندی، بنیادپسندی وغیرہ مذہبی نظام معاشرت کی انواع ہیں۔ سیکولر رویوں کو ہم سمجھنے سے اس قدر قاصر ہیں کہ جو فرد سیکولر ہونے کا دعوے دار ہو اسے دیسی سیکولر گردان کر پھبتیاں کستے ہیں۔ یہ کام عام لوگ تو کر ہی نہیں سکتے کیونکہ ان کی اکثریت کو سِرے سے علم ہی نہیں کہ سیکولر ہونا کس چڑیا کا نام ہے چنانچہ یہ معاندانہ رویہ وہ لوگ روا رکھتے ہیں جو خود کو مذہبی ظاہر کرکے قدامت پسندی یا بنیاد پرستی کے طعنے نہیں سننا چاہتے بلکہ خود کو کسی حد تک روشن خیال ظاہر کرتے ہوئے مقامی اور غیر ملکی سیکولر افراد میں ویسے ہی تمیز کرتے ہیں جیسے برطانیہ ، امریکہ میں رہتے ہوئے گورے اور دیسی کی تخصیص کرتے ہیں۔ بوالعجبی یہ ہے کہ وہاں دیسی ہونے سے اپنائیت کا اظہار مراد ہوتی ہے اور اپنے ملک میں کسی کے سیکولر پن کو دیسی ہونے کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ درحقیقت سیکولر صرف سیکولر ہوتا ہے جو مذہب کو ہر فرد کا ذاتی معاملہ سمجھتے ہوئے کسی کو کسی کے کسی عمل میں، تاوقتیکہ وہ کسی دوسرے کے لیے تکلیف دہ، توہین آمیز، دل آزار یا متشدد نہ ہو، دخیل ہونے سے منع کرتا ہے۔ دوسری جانب مذہبی ہوتے ہیں جو ہر ایک کے ہر ایسے عمل کو جو ان کی مذہب سے متعلق فہم کے مطابق نہ ہو نشانہ بنانا اپنا مذہبی فریضہ خیال کرتے ہیں۔

جمہوریت کی طرز حکمرانی بھی دو طرح کی ہوتی ہے پارلیمانی اور صدارتی۔ ہم دونوں آزما چکے ہیں۔ پھر ایک آمر صدر نے تو آئین میں ترمیم کرکے تمام تر اختیارات کو صدر کے صوابدید پر مبنی قرار دے دیا تھا، وزیراعظم کو ہٹائے جانے سے لے کر پارلیمان کو تحلیل کر دینے تک۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ موجودہ وزیر اعظم پارلیمانی نظام کے تحت وزیراعظم بنے ہیں مگر وہ آمر ایوب خان کے گن گاتے نہیں تھکتے۔ وزارت عظمٰی ہم نے نیم سوشلسٹ نیم جاگیردار ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر مقامی سرمایہ دار جسے سوشلسٹ اصلاح میں ” نیسنٹ بورژواژی ” کہا جاتا ہے اور جسے اس اصطلاح کے مطابق عالمی سرمایہ داروں کا گماشتہ سرمایہ دار کہا جاتا ہے، نواز شریف تک کے ہاتھ آئی دیکھی ہے ساتھ ہی دونوں کا حشر بھی سب کے سامنے ہے ایک جان سے گیا تو دوسرے کے لیے زندگی جان کاہ بنا دی ہوئی ہے۔

ہم دراصل چاہتے کیا ہیں؟ اس بارے میں ہم خود بھی واضح نہیں ہیں۔ ہم جہاں ایک طرف انتہائی جذباتی ہیں وہاں دوسری طرف بلاوجہ صابر بھی۔ ہم آمروں کو دیر تک برداشت کر لیتے ہیں لیکن سیاستدان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ مسائل کا فوری حل “ایجاد” کرے۔ ایک طرف ہم تجزیہ کیے بِنا ان تمام نعروں کو سچ مان لیتے ہیں جو شروع سے جھوٹے لگتے ہیں، ساتھ ہی ہر نئے آنے والے حکمران سے بے تحاشا توقعات وابستہ کر لیتے ہیں جن کا پورا کیا جانا عبث ہوتا ہے وہاں ہم توقعات پورا نہ ہونے پر تلملانے بھی جلد لگ جاتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ہم پسندیدہ سیاستدان کو سیاسی رہنما کم بلکہ اپنا روحانی رہنما زیادہ جان کر اس کے جیالے، متوالے، دل والے بن جاتے ہیں وہاں ہم ان حلقوں سے نکلتے ہی گندی نالی سے کیچڑ کی مٹھیاں بھر بھر کے اپنے سابق رہنماؤں پر ایسے اچھالنے لگتے ہیں جیسے غریبوں کی آبادی کی کسی گلی میں کسی سے اکتایا ہوا   کوئی بے  بس بچہ کرتا ہو۔

قصور ہمارا ہے ہی نہیں۔ قصور ہمارے حکمرانوں کا ہے جنہوں نے ہمارے سیاسی شعور کو پروان چڑھنے ہی نہیں دیا۔ جنہوں نے ہماری تعلیم اور ہماری تربیت کو اپنی خواہشات کے تابع بنانے مین کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاکستان میں زیادہ عرصہ آمریت رہی ہے۔ آمر صرف اس ادارے اور ان تنظیموں کو سہارا دیتا ہے جو اس کے معاون و مددگار ہوں۔ سیاستدان 1970 کی دہائی تک بدعنوان نہیں ہوتے تھے۔ ضیاء اور پرویز مشرف کے ادوار کے دوران اور بعد میں پھر وہ ایسا کیوں کرنے لگے، آپ خود سوچیے۔

رہی بات مالی بدعنوانی کی جسے ہم آج کرپشن کہنے لگے ہیں اگر میں کہوں کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ ہے ہی نہیں تو سب میری گردن ناپنے کو دوڑیں گے مگر میں یہ کہہ رہا ہوں۔ مسئلہ کرپشن نہیں ہوا کرتی مسئلہ وہ عوامل ہوتے ہیں جن کے سبب، جن کے تحت اور جن کی مدد سے لوگ بدعنوانی کرنے کی جانب مائل ہوتے ہیں اور کرتے ہیں۔ یہ عوامل جاری نظام سے وابستہ ہوتے ہیں چنانچہ جب تک نظام بدلنے کی کوشش نہیں کی جائے گی محض باتیں کی جائیں گی کہ ہم نظام بدل کے رکھ دیں گے تب تک کرپشن کا خاتمہ تو ایک طرف رہا ،جاری نظام کا تنکا تک نہیں ہلے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کی بہت مثالیں دیتے ہیں تو بھائی ان کے دور میں تو  زکٰوۃ لینے والا کوئی نہیں تھا۔ ان کے دور میں تو لوگوں کو اتنی آسائش میسر آ گئی تھی کہ چوری نہیں ہوتی تھی۔ ہاتھ کاٹے جانے کے ڈر سے نہیں بلکہ احتیاج نہ ہونے کے سبب۔ تو سمجھ آئی آپ کو کہ کیا کرنا چاہیے؟

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply