امریکہ کی اسرائیل نوازی ۔۔۔طاہر یاسین طاہر

ہر دور کی توفیق ہے ظالم کی وراثت
مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسا
جابروں کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ انھوں نے ہمیشہ ظالم طبقات کی حمایت و نصرت کی۔ اللہ اور اللہ والوں کے سوا البتہ مظلوم کا مددگار کون ہے؟امریکہ اپنے سماجی و سیاسی رویے میں منافق ترین ریاست ہے۔کیا سارے امریکی منافق ہیں؟ بالکل نہیں۔جب ہم امریکہ پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل سمیت ہر قاتل طبقے کی جنم گاہ اور ان کی پشت بان ریاست ہے تو اس سے ہماری مراد امریکی ریاست کی پالیسی اور اس کا مقتدر طبقہ ہوتا ہے نہ کہ عام امریکی۔وہ امریکی جو عدل پسند ہیں، دنیا کے وہ سارے انسان جو عدل پرست اور مظلوم کے حمایتی ہیں وہ قابل تکریم و تعظیم ہیں۔کیونکہ سارے مظلوموں کا ہدف ایک ہے۔ ظالم سے نفرت ۔ظالم سے نجات۔
اسرائیل ایک ثابت شدہ دہشت گرد ریاست ہے۔غزہ کی پٹی اسرائیلی وحشتوں کی گواہ ہے۔مجھے عرب ریاستوں کی خاموشی اور اسرائیل نوازی پر قطعی حیرت نہیں۔ اسرائیل کے سامنے سینہ سپر ہونا ان کے بس کی بات ہی نہیں نہ ان کی ترجیح ہے۔ تین چاردرجنمسلم ممالک پہ مشتمل عسکری اتحاد مسلمانوں کو ہی کمزور کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یمن و شام اس اتحاد کا خاص ہدف اگر نہیں تو پھر یہ اتحاد اپنا رخ اسرائیل کی طرف کیوں نہیں کرتا؟اس لیے کہ امریکی منشا یہی ہے۔خطے اور عالمی حالات پہ نظر رکھنے والے تجزیہ کار جانتے ہیں کہ اسرائیل کی امریکہ کے لیے خطے میں کیا اہمیت ہے۔اقوام متحدہ کے تمام ذیلی اداروں کے اجلاسوں کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیا جائے۔ ہر مرتبہ یہ امریکہ ہی ہوتا ہے جو اسرائیلی وحشتوں کی حمایت کرتا نظر آتا ہے۔اسی طرح چند دیگر عالمی طاقت کے سرکردہ ممالک بھی اکثر امریکہ کے اس حوالے سے ہم رکاب نظر آتے ہیں۔
تازہ رپورٹ کے مطابق” امریکہ نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے ممبران پر ’منافق‘ ہونے اور کونسل کے اسرائیل مخالف ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کونسل کی ممبرشپ چھوڑ دی ہے۔امریکہ کی اقوام متحدہ میں سفیر نکی ہیلی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق ’منافقانہ‘ ہے اور ’انسانی حقوق کا مذاق اڑا‘ رہی ہے۔امریکہ نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق پر اسرائیل مخالف ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کونسل کا ممبر رہنے کے فیصلے پر نظرثانی کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق 2006 میں قائم کی گئی تھی اور کونسل کو ان ممالک کو ممبران بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا جن ممالک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سوال اٹھتے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ایک بیان میں امریکی فیصلے کے حوالےسے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کونسل کا ممبر رہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے امریکی فیصلے کو ’مایوس کن ‘ قرار دیا ہے۔امریکہ کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ کی غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والے تارکین وطن کو ان کے بچوں سے علیحدہ کرنے کی پالیسی کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔زید رعد الحسین نے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کو ’بے ضمیر‘ قرار دیا ہے۔
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے ہمیشہ ہی سے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہے ہیں۔ بش انتظامیہ نے 2006 میں اس کونسل کے قیام پر اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا۔اس وقت اقوام متحدہ میں امریکی سفیر جان بولٹن تھے جو اس وقت صدر ٹرمپ کے نیشنل سکیورٹی کے مشیر ہیں۔امریکہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کا دوبارہ ممبر 2009 میں اوباما انتظامیہ میں ممبر بنا۔امریکہ کے کئی اتحادیوں نے اس پر کونسل میں رہنے پر زور دیا ہے۔ وہ ممالک امریکہ کی اقوام متحدہ پر تنقید کے حق میں ہیں ان کا بھی خیال ہے کہ امریکہ کونسل میں رہ کر اصلاحات کے لیے کام کرے۔نکی ہیلی نے کونسل کی ممبر شپ چھوڑنے کا اعلان وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ہمراہ مشترکہ پریش کانفرنس میں کیا۔نکی ہیلی نے کونسل کو ’سیاسی تعصب کی گندگی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’میں اس بات کو بالکل واضح کرنا چاہتی ہوں کہ اس قدم کا مقصد انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنا نہیں ہے۔‘یاد رہے کہ گذشتہ سال نکی ہیلی نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ماننا مشکل ہے کہ اسرائیل کے خلاف قراردادیں منظور کی جاتی ہیں لیکن وینزویلا کے خلاف ایک قرار داد پر بھی غور نہیں کیا جاتا جہاں درجنوں مظاہرین کو قتل کر دیا گیا۔سنہ 2013 میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اس وقت آواز اٹھائی جب چین، روس، سعودی عرب، الجیریا اور ویتنام کو ممبر منتخب کیا گیا۔ ”
امریکہ کا دکھ وینزویلا یا دیگر ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں بلکہ امریکہ کا دکھ جیسا کہ امریکی ذمہ داران کے بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے، کونسل میں اسرائیل مخالف قراردادوں کی منظوری ہے۔امریکہ سمیت عالمی برادری کے طاقت ورممالک اگر واقعی انسانی حقوق کے حوالے سے فکر مند ہیں تو انھیں چاہیے کہ کشمیر و فلسطین ،یمن،افغانستان و عراق سمیت جہاں جہاں بھی بم گرائے جا رہے ہیں،حملہ آور ممالک، اتحادیوں اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ اگر امریکہ اور اس کے عالمی اتحادی ایسا نہیں کر سکتے تو پھر نام نہاد انسانی حقوق کا رونا رو کر عالم انسانیت کی آنکھوں میں دھول مت جھونکیں۔ دنیا کے عدل پسند جانتے ہیں کہ اگر امریکہ و یورپی ممالک اسرائیل کی پشت پہ نہ ہوتے تو اسرائیل نہ تو ایٹمی طاقت بنتاا ور نہ ہی وہ اس قدر منہ زور ہوتا۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply