درکار سیاست۔۔حسان عالمگیر عباسی

اس وقت گرما گرم موضوعات اپوزیشن اور حکومت کے جلسے جلوس ہیں۔ یہ میڈیا کا دور ہے۔ سوشل میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ لیکن الیکٹرانک میڈیا پہ پاکستانی سیاسی پس منظر میں جگہ بنانا زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ جب جیو پہ نو بجے کی جگمگاتی سرخیوں میں سیاسی جماعتوں کے قائدین کا نام پکارا جاتا ہے تو معلوم نہیں کیوں لیکن ہر کارکن سینہ تان لیتا ہے۔ سیٹیں بہت کم ہیں بلکہ اکلوتی سیٹ ہے البتہ اپوزیشن کے لیے پارلیمان میں ہونے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن پارلیمان سے باہر کارکنان کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اور عدم اعتماد کا اظہار بھی اپوزیشن ہی ہے۔ پہلے اتحاد کی سیاست سے جان چھڑانا مشکل تھا اور اب میں اکیلا ہی چلوں گا جانب منزل نے آ گھیر لیا ہے۔ باقی جماعتیں اور ان کے کارکنان ڈیفینسو نہیں ہیں۔ جو اور جیسے کی بنیاد پہ پارٹی و قیادت کو قبول کرتے ہیں۔ انھیں رائے دہی کا اختیار دیا گیا ہے۔

جماعت کی قیادت جب کہتی ہے کہ سب چور ہیں سیدھا سا مطلب بچہ بھی باآسانی نکال لے گا کہ دراصل کہا یہ جا رہا ہے کہ ‘تو کجا من کجا’ جسے ہمارے اپنے یوں کہتے ہیں ‘تو کون تے اسی کون’ لیکن یہ مزاج سیاست جیسے بے رحم کھیل میں ناقابل قبول ہے اور حقیقت بھی یوں نہ ہو تو للکار دھیمی ہی بھلی لگتی ہے۔ ‘طے پا گیا ہے’ پالیسی ہوتی ہی نہیں ہے۔ ‘دیکھیں گے’ کو پالیسی کہتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں اگر واقعی جماعت کی ایک منفرد کاوش ہے تو قیادت کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیسے ملک کی خدمت کر سکتے ہیں۔ میرے حساب سے کارکنان کا پریشر لے لینا سیاسی جماعت کے شایانِ شان ہی نہیں ہے۔ سیاسی جماعت کو خود بھی بااعتماد ہونا پڑے گا اور کارکنان کو بھی بتانا ہو گا کہ لوہا کیسے منوایا جاتا ہے۔ اخے ہم مظلوم ہیں۔ اخے ہم وہ درخت ہیں جو سایہ دیتا ہے لیکن لوگ پتھر مارتے ہیں۔ اخے ہماری کاوشیں دیکھ لو۔ ہم نے قربانیاں دی ہیں۔ ہم پاکستان کی خیر چاہتے ہیں اور اس لیے نوجوانوں کی کھیپ تک دے ڈالی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سیاست نہیں مظلومیت ہے اور مظلومیت فرد کی تباہی ہے اور اگر کئی افراد مظلوم ہو جائیں گے تو جماعت ساری احساس محرومی کا شکار ہو جائے گی۔ دو ٹوک بات کی گنجائش نہیں ہے۔ بڑے دماغوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ کیا کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہیں سے ثابت نہیں ہے کہ سرگودھا کے چک اٹھتیس جنوبی کا کارکن چاہتا ہے کہ سولو فلائٹ لو تو لے لو اور لاہور کے ٹھوکر کا کارکن سمجھتا ہے کہ عدم اعتماد کے لیے ووٹ دینا سیاسی ستیاناسی ہے تو ہو گئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply