یہ کیسا خمار ہے ؟۔۔محمد اسد شاہ

کرکٹ ایک بار پھر پاکستانی عوام کے ذہنوں پر سوار ہے اور اس مرتبہ اس میں ایک سرشاری اور مستی کا عنصر غالب ہے ۔ بھارت چونکہ زندگی کے ہر میدان میں پاکستان کا مخالف اور مقابل سمجھا جاتا ہے ، اسے ہرانے کا مزہ ہر پاکستانی کے دل میں تادیر اسی طرح رہتا ہے جیسے دیہات کے رہنے والوں کو صبح کی لسی کا ذائقہ دوپہر تک مخمور رکھتا ہے ۔ بھارت اور پاکستان ، دونو ں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے متعلق اسی طرح کی مخاصمت اور مخالفت میں مبتلا ہیں ۔

کشمیر کا مسئلہ ایک دردناک تاریخی حقیقت ہے جس کی تہہ میں ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کا خون ہے ۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا ، پاکستان اور بھارت کے مابین دشمنی کا ماحول برقرار رہے گا ۔ اس مسئلے کے پُر امن حل کے کئی مواقع آئے ۔ 1948 میں اگر قائد اعظم کے حکم پر من و عمل درآمد ہو جاتا تو وہاں بھارت کے ہاتھوں ظلم کی یہ تاریخ کبھی رقم نہ ہو سکتی ۔ ایک اور دوسرا موقع تب آیا جب جنرل ایوب خان حکمران تھا ۔ لیکن اس نے اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے دانستہ یا نادانستہ مزید پیچیدہ بنا دیا ۔ تیسرا موقع اس وقت آیا جب میاں محمد نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی خود چل کر پاکستان آیا ، مینار پاکستان پر حاضری دی ، اپنے تاثرات قلم بند کیے اور پاکستان کے ساتھ تمام مسائل پُر امن طریقے سے حل کرنے کا اعلان کیا ۔ لیکن نادیدہ ہاتھوں نے اس موقعے کو ضائع کروا دیا ۔ دونو ں ممالک کی اس دشمنی کے برقرار رکھنے سے بعض عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ان ملکوں کے اندر بھی بعض سیاسی و غیر سیاسی گروہوں کے مفادات وابستہ ہیں ۔ مثلاً بھارت جب بھی اندرونی مسائل سے دو چار ہوتا ہے تو وہاں کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کوئی ایسا گل کھلاتے ہیں کہ سرحد کے اطراف شور مچ جاتا ہے اور حب وطن کے نام پر جذبات کا طوفان آ جاتا ہے ۔

کرکٹ کو بھی اسی قسم کے جذبات کی سوداگری کا ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ کوئی غور نہیں کرتا کہ کرکٹ میچ جیتنے سے کیا مقبوضہ کشمیر کے عوام کے دکھوں کا مداوا ہو جاتا ہے ؟

غیر جانب دار عالمی اداروں کی رپورٹس واضح کر چکی ہیں کہ پاکستان اس وقت دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک بن چکا ہے ۔ جہاں لوگوں کی فی کس آمدنی اتنی کم ہے اور اشیائے ضرورت کی قیمتیں اس قدر بلند ہیں کہ عام آدمی کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ تین وقت کھانا کھانے کی عادی اس محنت کش قوم میں اب ایسی “تبدیلی” آ چکی ہے کہ دو وقت کا کھانا بھی آدھی سے بھی  کم آبادی کے نصیب میں رہ گیا ہے ۔ لوئر مڈل کلاس تو اب مجبور ہو گئی ہے کہ دن رات میں صرف ایک ہی وقت کی روکھی سوکھی پر   قناعت کرے ۔

ماضی میں ہمیں بتایا جاتا تھا کہ جب کسی چیز کی قیمت ایک روپیہ بھی بڑھ جائے تو براۂ راست وزیراعظم کو چور مانا جائے ۔ لیکن گزشتہ تین سالوں میں چیزوں کی قیمتیں ایک ایک نہیں ، سینکڑوں اور ہزاروں روپے تک بڑھ چکی ہیں ۔ حالانکہ اس دوران کورونا کے مقابلے کے لیے اربوں ڈالرز کی غیر ملکی امداد بھی ملی ۔ اس کے باوجود قوم کو مہنگائی کی اتنی شدید لہر کا مقابلہ ہے کہ الامان و الحفیظ ! مجال ہے کہ جو کوئی بتا سکے کہ اب کس کو چور کہا جائے ۔

دوسری طرف بدامنی ، سٹریٹ کرائمز اور لاقانونیت عام ہیں ۔ سرکاری دفاتر میں رشوت کے ریٹ کم ہونے کی بجائے کئی گنا بڑھ چکے ہیں ۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ، جس کی تعریفیں کرنا عمران خان کی ہمیشہ عادت رہی ، نے بتایا کہ عمران خان ہی کی حکومت میں پاکستان میں کرپشن میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے ۔ لیکن ٹی ٹونٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں بھارت کو شکست دینے کا نشہ ایسا دماغوں پہ چڑھا دیا گیا کہ سادہ لوح عوام کو یہ سب کچھ بھول گیا ۔ انھیں پانامہ لیکس کے 446 چور تو پہلے ہی بھلا دیئے گئے تھے ، اب پینڈورا لیکس کے چور بھی عوام کے ذہنوں سے نکل گئے ، حالانکہ وہ کہیں گئے نہیں ، بلکہ ادھر ہی موجود ہیں ۔ کسی کو یہ یاد نہیں کہ اتنے بڑے بڑے سکینڈلز کی تحقیقات کرنا کن محکموں اور اداروں کی ذمہ داری تھی ، تقریریں اور جلسے کس کس کو کرنا تھے ، اب جے آئی ٹیز کیوں نہیں بن سکتیں ۔ سب اسی میں مست ہیں کہ بھارت کو کرکٹ میچ تو ہرا دیا ہے ۔

اس ہنگامے میں کسی نے یہ بھی نہ دیکھا کہ بعض وفاقی وزراء نے ٹی ایل پی کو بھارتی فنڈڈ تنظیم کہا ، حالا نکہ جب گزشتہ حکومت کے خلاف اسی ٹی ایل پی کے دھرنے ہوئے تو یہی وفاقی وزراء ان دھرنوں میں شامل ہوتے رہے اور ان دھرنوں کو بہت سراہتے بھی رہے ۔ تب عمران خان نے تحریک انصاف کے کارکنوں کو ہدایات جاری کیں کہ وہ ہر شہر میں ٹی ایل پی کے دھرنوں اور ہنگاموں میں بھرپور شرکت کریں ۔ اب اسی ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ بھی ہو گیا ہے جسے صرف چند ہی دن پہلے بھارتی ایجنٹ کہا گیا ۔

دوسری طرف یہ حکم بھی ہے کہ معاہدہ خفیہ رکھا جائے ۔ کرکٹ میچ کی جیت کے نشے میں کوئی نہیں پوچھے گا کہ حکومت اور ایک تنظیم کے مابین معاہدہ عوام سے خفیہ رکھنے کی اجازت کس قانون میں ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ملکی سالمیت اور آئین کا معاملہ ہے ، کسی کا ذاتی کاروبار نہیں ۔ کہا جا رہا ہے کہ ملک سے ڈالرز افغانستان سمگل ہو رہے ہیں ۔ سبزیاں ، آٹا ، گندم ، گھی اور چینی تک کی سمگلنگ کی باتیں سنائی دے رہی ہیں ۔ جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان مزید بڑھتا جا رہا ہے ۔ یہ سمگلنگ کیوں نہیں روکی جا سکتی ؟ کیا اس کو روکنا موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے ، یا پھر اس کا الزام بھی سابقہ حکومت پر لگایا جائے ؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply