نیل پالش کے ساتھ وضوء اور غُسل

نیل پالش کے ساتھ وضوء اور غُسل (عُسر و حرج کے تناظر میں):
امجد عباس، مفتی
مسلمان فقہاء کی اکثریت نیل پالش کے ساتھ وضوء اور غُسل کو درست نہیں جانتی۔ اِن کی دلیل یہ ہے کہ وضوء اور غسل میں اعضاء تک پانی پہنچانا ضروری ہے۔ ناخنوں پر نیل پالش لگانے سے پانی وہاں نہیں پہنچتا، بنا بر ایں نیل پالش لگا کر وضوء اور غُسل درست نہیں ہے۔
اگر قرآن مجید کو ملاحظہ کیا جائے تو آیتِ وضو میں واضح بتایا گیا ہے کہ پانی نہ ملے تو تیمم کرلو۔گویا اللہ تعالیٰ نماز اور دیگر عبادات کے لیے علامتی طہارت چاہتا ہے، چنانچہ فرمایا ،مَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ (سورہ مائدہ، آیت 6) کہ اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا اراده تمہیں پاک کرنے کا ہے۔
اِس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ وضو، غُسل کا فلسفہ علامتی اور ظاہری طہارت کا حصول ہے۔
ہاتھ پر اگر نیل پالش لگی ہوئی بھی ہو تو بھی دھونا صدق کرتا ہے، اِسی طرح نہانا بھی صدق کرتا ہے۔ وضو اور غُسل کے حوالے سے احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی بڑی رکاوٹ بدن پر موجود نہیں ہونی چاہیے، اگر کوئی ایسی چیز چپکی ہو جسے آسانی سے اُتارا جا سکے تو اُتار دیا جانا چاہیے۔ اگر ظاہری رکاوٹ کو اُتارا نہ جا سکے جیسے پٹی وغیرہ تو “جبیرہ”کے احکام لاگو ہوں گے۔
اگر نیل پالش، تیل یا ایسا کوئی مائع بدن پر لگا ہو جو باآسانی اُتارا نہیں جا سکتا اور بظاہر جلد کا حصہ شمار ہورہا ہوتا ہے تو اُسے ہٹانا عُسر و حرج کا باعث ہے۔ اُس کے ہوتے ہوئے وضو اور غُسل درست ہیں۔
بال پوائنٹ کی سیاہی بھی بدن پر لگی ہوتو وضو اور غُسل میں مانع نہیں ہے۔
سورہ حج کی آیت 78 مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ کہ (اللہ نے) دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی اور سورہ بقرہ، آیت 185 يُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ کہ اللہ تعالیٰ کا اراده تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں۔ اِن آیات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ دین کے سبھی معاملات میں اللہ تعالیٰ ہمارے لیے آسانی چاہتا ہے۔ (یہ محض رائے ہے، فتویٰ نہیں، فتوے کے لیے اپنے فقہاء کی طرف رجوع کیجیے)

Facebook Comments

امجد عباس، مفتی
اسلامک ریسرچ سکالر۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply