بے مقصد مباحثے اور برہمن و شودر کی تفریق (3)-مرزا مدثر نواز

نوٹ: تحریر کیے گئے الفاظ قلم کار کی تحقیق و دانست کے مطابق ذاتی رائے کا اظہار ہے جس سے قارئین کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ نیز تحریر کا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا یا دل آزاری ہر گز نہیں۔

سورہ البقرہ کی آیت نمبر 134میں ارشاد ہو تا ہے کہ ”ترجمہ: یہ جماعت تو گزر چکی‘ جو انہوں نے کیاوہ ان کے لیے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لئے ہے۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم سے  نہیں پوچھا جائے گا“۔
یہود کو کہا جا رہا ہے کہ تمہارے آباؤ اجداد میں جو انبیاء و صالحین ہو گزرے ہیں‘ ان کی طرف نسبت کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے‘ اس کا صلہ انہیں ہی ملے گا‘ تمہیں نہیں‘ تمہیں تو وہی کچھ ملے گا جو تم کماؤ گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلاف کی نیکیوں پر اعتماد اور سہارا غلط ہے۔ اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہی ہے جو پچھلے صالحین کا بھی سرمایہ تھا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کی نجات کا بھی واحد ذریعہ ہے۔ ہر شخص کا اپنا عمل ہے‘ معبودِ برحق اسے اسی کے فعل کی جزا دے گا‘ وہ کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے گناہوں کی وجہ سے مواخذہ نہیں کرے گااور کسی شخص کو صرف اس کا اپنا ایمان اور تقویٰ ہی کام دے گا۔

”تکمیل انسانی کی منزل میں سب سے بڑا سنگِ راہ امتیاز مراتب تھا جو دنیا کی تمام قوموں نے‘ تمام مذاہب نے‘ تمام ممالک نے مختلف صورتوں میں قائم کر رکھا تھا‘ سلاطین سایہ یزدانی تھے جن کے آگے کسی کو چون و چرا کی مجال نہ تھی‘ آئمہ مذہب کے ساتھ کوئی شخص مسائل مذہبی میں گفتگو کا مجاز نہ تھا‘ شرفاء رذیلوں سے ایک بالاتر مخلوق تھی‘ غلام آقا کے ہمسر نہیں ہو سکتے تھے۔ فخر کائنات‘ رہبر انسانیت‘ سید الانبیاءﷺ کے خطبہ حجتہ الوداع میں یہ تمام فرقے‘ یہ تمام امتیازات‘ یہ تمام حد بندیاں دفعتاََ ٹوٹ گئیں۔
”لوگو! بیشک تمہارا رب ایک ہے اور بیشک تمہارا باپ ایک ہے ہاں عربی کو عجمی پر‘ عجمی کو عربی پر‘ سرخ کو سیاہ پراور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں‘ مگر تقویٰ کے سبب سے“۔
”ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور مسلمان مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں“۔
”تمہارے غلام! تمہارے غلام!! جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤجو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ“۔ (سیرت النبیﷺ از شبلی نعمانی)“
عالمِ دین اور دانشور محترم طفیل ہاشمی صاحب شجرہ نسب کی معرکہ آرائی میں اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں فرماتے ہیں کہ:
۱۔کوئی شخص اپنی مرضی‘ پسند اور اختیار سے کسی خاندان یا والدین کے ہاں پیدا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ سے خود کو برتر سمجھنا ایک ایسی شے پر تکبر کرنا ہے جس کے حصول میں خود اس کی کوئی کاوش نہیں ہے۔ اسی طرح کسی خاندان کی وجہ سے کسی کو کمتر سمجھنا اللہ کے فیصلوں اور امر کی توہین ہے۔
۲۔ اتھے عملاں تے ہونے میں  نبیڑے تے کسے نہ تیری ذات پچھنی۔ حضرت نوع کے بیٹے‘ لوط کی بیوی اور فرعون کی بیوی کا ذکر نیز انبیاء بنی اسرائیل کی ساری لڑی کے تذکرہ کے بعد قرآن نے یہ کہاکہ ”تلک امتہ قد خلت لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم“ یہ لوگ گزر چکے‘ ان کی نیکیاں اور گناہ ان کے ساتھ‘ تم اپنی بات کرو‘ اس امر کا ثبوت ہے کہ اسلام نسلی تفاخر کو جاہلیت سمجھتا ہے۔
۳۔ اگر کوئی شخص کسی علمی گھرانے میں پیدا ہوا یا کسی نبی کی اولاد میں سے ہے تو یہ حیثیت اس کی ذمہ داری بڑھانے کا موجب ہے نہ کہ من مانی کرنے کا لائسنس۔
۴۔ قرآن نے واضح انداز میں نسلی تفاخر کی نفی کی ہے اور بتایا ہے کہ سب آدم کی اولاد ہیں۔ رسول اکرم نے خطبہ حجتہ الوداع میں نسلی تفاخر کے خلاف انتہائی واضح مؤقف اختیار کیا‘ اس کے بعد بھی اگر کسی کے لیے ہاشمی یا سید ہونا وجہ اعزاز ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے رسول اکرم کے مؤقف سے اتفاق نہیں۔
۵۔ اس سلسلے میں نسلی تفاخر کی جو روایات پیش کی جاتی ہیں ان کی تخلیق کا آغاز بنو امیہ نے کیا تھاکیونکہ انہوں نے جاہلیت کے نشاۃ ثانیہ کے لیے پورے وسائل صرف کر دیئے تھے تاہم خود ان میں بھی ایسی پاکیزہ ارواح موجود تھیں جو اسلام کو ترجیح اوّل قرار دیتی تھیں۔
۶۔ یہ اسلام ہے اور رسول اللہ کا لایا ہوا دین ہے جو وحدت نسل انسانی کا علم بردار ہے جس منزل کے حصول کے لیے آج بھی انسانیت تڑپ رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کمی کمین والے جملہ کے بارے میں محترم طفیل ہاشمی صاحب فرماتے ہیں کہ ”یہ جملہ ڈراموں میں وڈیروں اور زمینداروں کے منہ سے تو کہلوایا جاتا ہے لیکن میں جب اپنے کسی جاننے والے سے کسی کے بارے میں یہ الفاظ سنتا ہوں تو لگتا ہے گویامیری زندہ لاش ستون دار پر سجا دی گئی ہے۔ ممکن ہے کوئی بندہ تہذیب و ثقافت کے اس معیار پر پورا نہ اتر رہا ہو جو آپ کے سماج کا چلن ہے لیکن کیا کسی کو کمی کمین کہنا اللہ کی توہین نہیں جس نے کہا ہے کہ انا خلقنا کم من ذکر و انثی وجعلنا کم شعوبا و قبائل لتعارفوا۔ کیا ایسا کہنا توہین نبوت نہیں کہ آپ کا ارشاد ہے کلکم من آدم و آدم من تراب۔ اگر کوئی کسی معزز گھرانے میں پیدا ہو گیاتو اس نے وہ گھرانااپنی پیدائش کے لیے خود منتخب کیا تھا‘ اگر کسی فرد کو اپنے خاندان میں علم و تہذیب کی وہ سہولتیں نہیں مل سکیں جو آپ کو میسر آئیں تو اس میں اس کا کیا قصور؟۔ اسی وجہ سے قرآن نے نسلی تفاخر و کمتری کو جاہلیت کے اثرات قرار دیتے ہوئے ذاتی سعی و کاوش کو وجہ فضیلت و اعزاز قرار دیاکہ ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply