نسلِ انسانی کا اگلا پڑاؤ(دوسرا حصّہ)۔۔محمد شاہ زیب صدیقی

مریخ ہماری زمین کے نزدیک آرہا ہے، آنے والے دنوں میں یہ سُرخ سیارہ آسمانِ دنیا میں ہمیں متوجہ کیے رکھے گا، جس وجہ سے فلکیاتی نگری کے باسی آجکل مریخ کی محبت میں گرفتار نظر آتے ہیں۔ ہم نے پچھلی قسط میں سمجھا کہ مریخ سے ہماری یاری اربوں سال پُرانی ہے، بلکہ ہمیں شک گزرتا ہےکہ زندگی کے بیج مریخ نے ہی زمین پر تحفتاً بھیجے تھے۔ہم نے یہ بھی تفصیلی جانا کہ کیسے مریخ کی سطح پر پانی کے وسیع ذخائر دریافت کرلیے گئے ہیں، اس تناظر میں جو اگلا سوال انسانی ذہنوں میں ہلچل پیدا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ مریخ پر کسی بھی قسم کی زندگی کیا موجود ہوسکتی ہے؟ اگر ہاں تو پھر کیا انسانوں کو مریخ کو تسخیر کرنا چاہیے یا پھر مریخ کو Martians کے لئے ہی چھوڑ دینا چاہیے ؟ فلکیاتی حلقوں میں یہ بحث ایک عرصے سے چل رہی ہے ، اس بحث کی وجہ سے ہی ہم نے کیسینی اسپیس کرافٹ کو زحل میں پھینک کر تباہ کردیا ، تاکہ وہ زحل کے کسی بھی چاند کو زمینی جرثوموں کی مدد سے contaminate یعنی آلودہ نہ کرسکے،کیونکہ ہمیں شک ہے کہ زحل کے چاند انسلادس اور ٹائٹن پر زندگی کسی شکل میں موجود ہوسکتی ہے۔یہی وجہ ہےکہ ہم مریخ کے بارے میں بھی شش و پنج کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ آج ہم مریخ کے متعلق کچھ ایسے حقائق جاننے کی کوشش کریں گے،جو مستقبل میں مریخ پر بسنے والے انسانوں کے لئے انتہائی اہم ہیں…
دوستوں مریخ اپنے اندر عجیب سی کشش لیے بیٹھا ہے، عجیب اس خاطر کہ اس پرسرار سیارے پر زندگی کی ضروریات کا سامان موجود ہے مگر یہاں حیران کن طور پر زندگی دکھائی نہیں دیتی، یہ سیارہ ہمیں اشارے کنائے میں یہ سرگوشی بھی کرتا ہےکہ میں ماضی میں بالکل زمین جیسا تھا، پھر سوال اٹھتا ہے کہ وہ سب گیا کہاں؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کےلئے ناسا نے جولائی 2020ء میں مریخ کی جانب ایک مشن بھی روانہ کیا ہے، جو 2021ء مریخ کی سطح پر لینڈ کرنے کے بعد کھدائی کرکے مٹی نکالے گا اور اس مٹی کے سیمپلز کو ٹیوبز میں سِیل کرکے رکھ دے گا، جب کبھی انسان مریخ پر پہنچ کر مریخ سے واپس آنے کے قابل ہوا تو اِن سیمپلز کو معائنہ کرنےکےلئے زمین پر بھیجا جائے گا، اس مشن میں ایک ننھا ہیلی کاپٹر بھی بھیجا گیا ہے جو اُڑ کر مریخ کے ارد گرد کے اُن مقامات کا جائزہ لے گا، جہاں روور کو پہنچنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔کچھ سال قبل مریخ کے مدار میں گردش کرتی سیٹلائیٹ کی مدد سے ماہرین کو سُرخ سیارے کی سطح پر کئی جگہوں پہ بہت بڑے، گہرے اور پرسرار سوراخ (holes)بھی ملے، یہ سوراخ اتنے گہرے ہیں کہ روشنی بھی ان کے پیندے(base)کو چھُونہیں سکتی جس وجہ سے ان کی گہرائی کے متعلق اب تک معلوم نہیں ہوپایا، بلکہ ایک سوراخ کی گہرائی کے متعلق اندازہ لگایا گیا کہ یہ 430 فٹ گہرا ہے۔گمان ہے کہ کبھی انسان مریخ کی سطح پر اترا تو ان غار نما سوراخوں میں جاکر کچھ نیا تلاش کرسکتا ہے۔زمین کی نسبت مریخ کی فضاکافی کمزور ہے ، وہاں امونیا اور میتھین کی موجودگی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ مریخ کی سطح کے نیچے کسی قسم کی زندگی کا امکان موجود ہےکیونکہ اتنے کمزور atmospheric pressure میں ان دونوں گیسز کو زیادہ دیر مریخ کی فضا میں نہیں رہنا چاہیے، مگر ان گیسز کی مسلسل موجودگی biological process کے بغیر ممکن نہیں۔ کچھ تحقیقات یہاں تک کہتی ہیں کہ میتھین کی یہ گیسز درحقیقت مریخ کی سطح کے نیچے سے اٹھ رہی ہیں، جس خاطر مریخ کی سطح کے نیچے زندگی کا خیال تقویت پکڑتا جاتا ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ ہماری زمین اپنے محور پر 23.5 ڈگری جھکی ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہاں پر گرمی اور سردی کے موسم آتے جاتے رہتے ہیں، بالکل اسی طرح یہ سُرخ سیارہ بھی اپنے محور پر 25 ڈگری جھُکا ہواہے جس کے باعث مریخ اور زمین کےموسموں میں حیران کن حد تک مطابقت ہے، گرمیوں میں مریخ کا درجہ حرارت 35ڈگری تک چلا جاتا ہے جبکہ سردیوں میں اس کا درجہ حرارت منفی 150ڈگری تک رہتا ہے،سردیوں میں درجہ حرارت اس حد تک گر جانے کی وجہ مریخ کی کمزور atmosphereہے جس وجہ سے مریخ پر سورج سےآنے والی گرمائش سٹور نہیں ہوپاتی اور خلاء میں واپس چلی جاتی ہے،اس کے علاوہ مریخ چونکہ زمین کے مقابلے میں سورج سے زیادہ دُور ہے اس وجہ سے وہاں پر سورج کی گرمائش بھی زمین کی نسبت آدھی ہے، سورج سے دُوری کے باعث ہی یہاں پر موسموں کی duration بھی زمین کی نسبت دُگنی ہوتی ہے۔ ہم نے پچھلی قسط میں سمجھا کہ مریخ پر عموماً بہت بڑے طوفان آتے رہتے ہیں جو مریخ کو مکمل طور پر ڈھانپ لیتے ہیں ، یہ طوفان بھی عموماً گرمیوں کے موسم میں ریکارڈ کیے گئے ہیں، چونکہ مریخ کے قطبین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ برف کی شکل میں منجمد رہتی ہےیہی کاربن ڈائی آکسائیڈ گرمیوں کے موسم میں برف سے گیسی شکل اختیار کرلیتی ہے جس وجہ سے مریخ پر ہوائیں چلتی ہیں بعد ازاں یہ ہوائیں شدید طوفان میں تبدیل ہوجاتی ہیں جو کئی ماہ تک مریخ کو ڈھانپے رکھتا ہے اور مریخ کی سطح کا بقیہ کائنات سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔
دسمبر 2014ء کو ناسا کے اسپیس کرافٹ نے حیران کن طور پر مریخ کی فضا میں auroras دیکھے،auroras ایسے قدرتی مظہر کو کہتے ہیں جب سورج سے آنے والے چارجڈ پارٹیکل کسی سیارے کے گرد موجود مقناطیسی فیلڈز سے ٹکراتے ہیں تو رات کے وقت آسمان پر دلکش رنگ بکھرتے دکھائی دیتے ہیں، یہ عموماًزمین کے قطبین پر موجود علاقوں پر بنتے دِکھائی دیتے ہیں،مریخ پر یہ مظہردکھائی دینا حیران کن اس خاطر تھا کیونکہ مریخ پر کوئی مقناطیسی میدان موجود نہیں، جس وجہ سے سائنسدانوں کا خیال ہےکہ آج سے اربوں سال پہلے زمین کی طرح مریخ پر بھی مقناطیسی فیلڈموجود تھی ،اُس مقناطیسی فیلڈ کی باقیات آج بھی مریخ کے کچھ علاقوں میں موجود ہیں ،جس کے باعث مریخ کے اُن علاقوں میں aurorasدیکھنے کو ملتے ہیں۔مریخ کے اب تک 2 چاند دریافت ہوچکے ہیں، جن کے متعلق ہمارا گمان ہے کہ یہ کوئی آوارہ پتھر تھے جو بیچارے مٹرگشتی کرتے ہوئے مریخ کے پاس سے گزرے اورمریخ کی کشش ثقل میں جکڑ کر اس کے گرد گھومنا شروع ہوگئے جنہیں ہم آج اس کے چاند کہتے ہیں۔ہمارے چاند کی نسبت یہ بہت چھوٹے ہیں، اس کا اندازہ ایسے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے چاند کا diameter تقریباً 3474 کلومیٹر ہے جبکہ مریخ کے چاند Phobosکا قُطر 22 کلومیٹر اور Deimosکا قُطر 12 کلومیٹر ہے۔ اگلے چند سالوں میں جب نسل انسانی مریخ پر پڑاؤ کرے گی تو حیران کن مناظر دیکھے گی کیونکہ Phobos دن میں 2 مرتبہ مغرب سے طلوع ہو کر مشرق میں غروب ہوتا ہے جبکہ Deimos 2 دن میں ایک بار مشرق سے طلوع ہوکر مغرب میں غروب ہوتاہے۔مریخ کے باسیوں کو مریخی سطح سےPhobosکا سائز زمین کے چاند سے محسوس ہوگا، جبکہ دوسرا چاند Deimosمریخ کے آسمان پر کسی ستارے جیسا دکھائی دے گا، چونکہ مریخ کے چاند سائز میں بہت ہی چھوٹے ہیں جس وجہ سے ہماری آنے والی نسلیں اگر وہاں شفٹ ہوئیں تو اُدھر زمین جیسامکمل سورج گرہن کا نظارہ کبھی دیکھنے کو نہیں ملے گا، ہمیشہ جزوی سورج گرہن ہی دیکھا جاسکے گا،اب تک کی کیلکولیشنز کے مطابق Phobosکا مریخ سے فاصلہ گھٹتا جارہاہے اور آئندہ 5 کروڑ سال بعد یہ مریخ کی سطح سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے گا۔ جس کا مطلب ہے کہ نسل انسانی اگر مریخ پر آباد ہوتی ہے تو وہاں بھی خطرات سر پر منڈلاتے رہیں گے اور انہیں اپنی بقا کےلئے دیگر اجرام فلکی کی جانب ہجرت کرنی پڑے گی۔
لیکن اس سارے scenario میں بات وہیں گھُوم پھر کر آجاتی ہے کہ کیا مریخ پر کوئی جاندار موجود ہے؟ یہ سوال اتنا اہم اس خاطر بھی ہے کیونکہ اگر مریخ پر زندگی مل گئی تو ہم انسان کبھی اس سیارے کو تسخیر کرنے نہیں جائیں گے۔ اب تک کی معلومات کے تحت ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں انسانوں جیسی کوئی ذہین مخلوق قطعاً موجود نہیں ہے،لیکن چونکہ مریخ پر نمکین پانی کی موجودگی کی تصدیق کی جاچکی ہے اور نمکین پانی زندگی کی نشونما کےلئے بہترین عناصر میں سے ایک ہے، جس وجہ سے کہا جاسکتا ہے کہ مریخ کی سطح کے نیچے زندگی کی کوئی نہ کوئی شکل موجود ہوسکتی ہے،یا پھر مائیکرولیول پر کوئی زندگی موجود ہونے کے بہت زیادہ امکانات موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ناسا کی مریخ پرجوخلائی گاڑیاں موجود ہیں، انہیں اُن ممکنہ جگہوں پر نہیں لے جایا جارہا جہاں پر زندگی موجود ہوسکتی ہے، کیونکہ ان گاڑیوں پر وہ جراثیم بہرحال زندہ حالت میں ابھی تک موجودہوسکتے ہیں جو زمین سے ان کے ساتھ مریخ پر پہنچے ہیں، اور اگر مریخ پر کوئی جراثیم پہلے سے موجود ہوئے تو ہمارے زمینی جراثیم ان پر اثر انداز ہوجائیں گے جس وجہ سے ہم مریخ پر زندگی کی اصل حالت کیسی تھی اس کا اندازہ شاید کبھی نہ لگا پائیں، اسی شک کے تحت پچھلے سال ناسا نے کیسینی نامی اسپیس کرافٹ زُحل کے ساتھ ٹکرا کر تباہ کردیا تھا، کیونکہ اندازہ یہ کیا جارہا ہےکہ زحل کے چاند انسلادس اور ٹائٹن پر زندگی موجود ہوسکتی ہے،یاد رہے انسلادس پر گرم پانی کے سمندر جبکہ ٹائٹن پر میتھین کے وسیع ذخائر مل چکے ہیں۔
ابھی تین سال قبل یعنی 2017ء میں ہمیں بذریعہ فاسلز معلوم ہوا کہ زمین پر زندگی 4 ارب سال پہلے بہت ہی simple form میں موجود تھی، اور اس کے ثبوت ہمیں مغربی آسٹریلیا کے علاقے سے ملے ہیں جس کے بعد سائنسدانوں کو clueملا ہےکہ اگر مریخ پر زندگی کی تلاش کرنی ہے تو ہمیں ایسے ماحول سے مطابقت رکھنے والی جگہ کو مریخ پر ڈھونڈنا ہوگا۔ جون 2018ء میں ناسا کی خلائی گاڑی Curiosity نے مریخ پر 3 ارب سال پرانی چٹانوں کا معائنہ کیا تو وہاں بھی زندگی کو support کرنے والے minerals کی موجودگی دکھائی دی جس کے باعث دن بدن ہمیں یقین ہوتا جارہا ہے کہ کبھی نہ کبھی مریخ پر زندگی کسی شکل میں ضرور آباد تھی یا شاید آج بھی آباد ہو۔مزید معلومات کے حصول کے لئے اگلے چند سالوں میں مزید کچھ مشنز مریخ کی جانب لانچ کیے جائیں گے۔SpaceX نامی خلائی کمپنی نے 2024ء تک مریخ پرپہلا انسان بھیجنے کا عندیہ دے رکھا ہے۔ناسا نے 2030ء تک انسان کے مریخ پر قدم رکھنے کے حوالے سے بھی ایک پروگرام ترتیب دے رکھاہے۔ دیگر خلائی ایجنسیز نے مریخ پر انسانوں کی آبادکاری کےلئے بھی مشنز پلان کرنا شروع کردئیے ہیں، اس کا مقصد انسانوں کو مریخ پر شفٹ کرنا ہوگا، یہ مشنز ون سائیڈڈ ہونگے یعنی اس مشن پرجانے والے انسان کبھی واپس نہیں لوٹیں گے، امید کی جارہی ہے کہ اگلے دس سے پندرہ سالوں میں مریخ پر انسانوں کی آبادکاری کے لئے پہلا گروپ بھیجا جائے گا جس میں ایک پاکستانی بھی شامل ہے۔انسان مریخ پر کیسے آباد ہوگا؟ وہاں پر اسے کیا کیا مشکلات کا سامنا رہے گا؟ ان مشکلات کا ممکنہ حل کیا تلاش کیا گیاہے؟ کیا انسان کو زمین سے باہر دیگر سیاروں پر آباد کرنے کی یہ کوشش کامیاب ہوسکے گی؟ ان سب سوالات کا جواب ہم اگلی قسط میں تلاش کریں گے، سوال جتنے بھی ذہن کے دریچوں پر دستک دیں لیکن ایک بات طے ہے کہ انسان مریخ پر آبادکاری کا پُرخطر سفر اگلے چند سالوں میں شروع کرنے والا ہے، مریخ کو مکمل طور انسانوں کے رہنے کے قابل بنانے کے لئےہمیں شاید سینکڑوں سال لگ جائیں مگر اس منزل کی جانب پہلا قدم اگلے چند سالوں میں اُٹھا لیا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply