احسان اللہ احسان کی معافی

ایک مخصوص فرقے کی طرف سے احسان اللہ احسان کو معاف کرنے کا مطالبہ زور و شور سے کیا جا رہا ہے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی آیات و روایات لائی جا رہی ہیں جن میں مجرم کو معافی دینے کی بات کی گئی ہے.اس ضمن میں سب سے پہلی بات تو یہ کہ آپ نے ایک دہشت گرد تنظیم کا سرغنہ پکڑا ہے جس نے ہزاروں بے گناہ افراد شہید کیے ہیں.دوسری بات، یہ ایک جنگ ہے مسلمان فوجیوں کے سروں سے فٹبال کھیلنے والوں کے ساتھ. رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واضح فرامین کے مطابق مسلمان کی جان و مال و عزت کی حرمت کعبے سے بھی زیادہ ہے. میدان جنگ میں اگر کوئی عورت آئے گی تو لونڈی بنا لی جائے گی کیونکہ اس نے جرم ہی اتنا بڑا کیا ہے، وہ مسلمانوں کا خون بہانے میدان میں آ گئی ہے. مسلمانوں، پاکستانیوں اور معصوموں کے خون کی بات چلی ہے تو کچھ اعداد و شمار کا آئینہ دیکھنا بھی فائدہ مند ہو گا. اٹک حملہ، جیکب آباد حملہ، بڈھ بیر چھاؤنی حملہ، شکارپور خودکش دھماکا اور مردان نادرا آفس دھماکہ 2015 کے بڑے حملے تھے. سال 2016 میں لگ بھگ ساڑھے آٹھ سو افراد ہلاک ہوئے. بارہ فروری 2017 سماء نیوز کے صحافی تیمور خان کو قتل کر دیا گیا اسی دن جنوبی وزیرستان میں تین ایف سی اہلکار شہید کر دئیے گئے. سولہ فروری 2017 سیہون شریف میں حضرت لعل شہبار قلندرؒ کی درگاہ میں ہونے والے بم دھماکے میں 88 افراد شہید اور 350 سے زاید زخمی ہوئے۔ اسی دن پولیس موبائل پر حملہ ہوا پانچ افراد ہلاک ہوئے اور اسی دن آواران میں تین فوجی شہید کیے گئے. مجموعی طور پر ابھی تک ساٹھ پینسٹھ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں. یہ صرف ساٹھ ہزار افراد نہیں ہیں بلکہ ان ساٹھ ہزار کے ساتھ کتنی زندگیاں جڑی ہوئی تھیں، کتنے بچے یتیم ہوئے، کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں، کتنی ماؤں کی گود اجڑی، مگر ہمارے مذہبی طبقے کو اس سے کوئی غرض نہیں، بے حسی اور بے غیرتی کی حد تو یہ ہے کہ کوئی اسے شاعر، ادیب اور فلاسفر ثابت کرتا ہے، کوئی مظلوم اور کوئی ملکی اثاثہ۔۔۔فی الحال اس بحث کو یہیں روکتے ہوئے قاتلوں اور جنگی قیدیوں کو معاف کرنے سے متعلق قرآن و حدیث سے چند دلائل دیکھتے ہیں.
سورۃ البقرۃ کی آیت 178 میں اللہ تعالیٰ نے قاتل سے قصاص لینے کو فرض قرار دیا ہے۔ قصاص کا قانون تورات میں بھی بیان کیا گیا تھا، تاہم اس میں قاتل کو معاف کر کے دیت لینے کی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ اجازت تمھارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔سورۂ نور کی آیت 2 میں زانی مرد اور زانی عورت کے لیے سو کوڑوں کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہاں قرآن نے اپنی بیان کردہ سزا کے نفاذ کو اللہ کے دین پر عمل درآمد کا معاملہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مجرم پر کوئی ترس کھائے بغیر اس پر سزا کا نفاذ اہل ایمان کے ایمان کا تقاضا ہے۔ مزید کے لیے غزوہ بدر کے قیدیوں کی تفصیلات دیکھ لیں.نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً بھی بہت سے مقدمات میں مجرم کے ساتھ ہمدردی محسوس کرنے، صاحب حق کے معاف کر دینے یا تلافی کی متبادل صورت موجود ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزا ہی کے نفاذ پر اصرار کیا۔ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلے جس شخص کا ہاتھ کاٹا گیا، اسے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور آپ کو بتایا گیا کہ اس نے چوری کی ہے تو آپ کا چہرہ مبارک اس طرح سیاہ ہو گیا، جیسے اس پر راکھ پھینک دی گئی ہو۔ صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ، آپ کو کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا: ’’میں اس پر سزا نافذ کرنے سے کیسے رک سکتا ہوں، جبکہ تم خود اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد کرنے والے ہو؟ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ (تمھیں چاہیے تھا کہ اس کو میرے سامنے پیش نہ کرتے ) کیوں کہ حکمران کے سامنے جب سزا سے متعلق کوئی معاملہ پیش ہو جائے تو اس کے لیے سزا کو نافذ کرنا ہی مناسب ہے۔‘‘(مسند احمد)
حضرت صفوان ابن امیہ مدینہ تشریف لائے اور مسجد میں سر کے نیچے اپنی چادر رکھ کر سو گئے اسی (دوران) ایک چور آیا اور اس نے ان کی وہ چادر (آہستہ سے کھینچ لی اور بھاگنا چاہا) مگر صفوان نے اس کو پکڑ لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور واقعہ بیان کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (خود مجرم کے اقرار یا گواہوں کے ذریعہ چوری ثابت ہو جانے پر) اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، یہ فیصلہ سن کر حضرت صفوان کو رحم آ گیا اور انہوں نے کہا کہ”اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لانے سے میرا یہ ارادہ نہیں تھا کہ صرف میری چادر کی وجہ سے اس کے ہاتھ کاٹے جائیں اس لئے میں سفارش کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو معاف فرما دیں، میں نے اپنی چادر اس کو صدقہ کر دی ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” پھر اس کو میرے پاس لانے سے پہلے ہی تم نے اپنی چادر اس کو صدقہ کیوں نہ کر دی تھی اور اس کو معاف کیوں نہیں کر دیا تھا”۔ (مشکوۃ المصابیح ، جلد سوم ، چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احادیث مبارکہ ، حدیث 750)۔معزز قارئین مندرجہ بالا قرآن و حدیث کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ احسان اللہ احسان نہ صرف ریاست پاکستان کا مجرم ہے بلکہ کروڑوں عوام کا بھی مجرم ہے جس کے لیے قصاص کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں اور نہ ہی احسان اللہ احسان کے زندہ رکھنے میں پاکستان کا کوئی فائدہ، نقصان ہے۔

Facebook Comments

قمر نقیب خان
واجبی تعلیم کے بعد بقدر زیست رزق حلال کی تلاش میں نگری نگری پھرا مسافر..!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply