ناصر عباس نیر کا افسانہ “شکر اس کا جس نے آدمی یا سور نہیں بنایا “ایک اجمالی جائزہ/مقصوددانش ،کولکاتہ

یہ ایک استعاراتی افسانہ ہے، فنکار خارج سے زیادہ آدمی کی باطنی خباثتوں پر نگاہ رکھتا ہے،ہزاروں برس سے تشکیل پذیر تہذیب و ثقافت آدمی کے جبلتی نظام میں موجود وحشیانے پن پرقابو پانے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن آدمی کی شرشت کی خباثتوں کا انسداد شاید ممکن نہیں،
ناصر عباس نیر نے چینٹیوں کی ایک قطار میں شامل زمانہ شناس ایک بوڑھی چینوٹی اور نئی نسل کی ترجمان ایک نو عمر چینوٹی کےمکالموں کے ذریعے انسانی شرشت میں موجود وحشیانے پن کو مفکرانہ و فنکارانہ درک کے ساتھ نمایاں کیا ہے ۔افسانہ مختصر ہے لیکن بیانیہ کی زیریں لہروں میں کائنات میں بکھرے ہوئے آدمیوں کی عجیب عجیب صورتیں نظر آنے لگتی ہیں ۔افسانے میں آدمی کی درندگی کی سطح اس اسفل ترین مقام پر پہنچ گئی ہے کہ حقیر چیونٹیاں بھی آدمی تو آدمی،سور تک کہ جون میں آنے کی روادار نہیں ،وہ اپنے رب کا شکر گزار ہیں کہ زمین پر رینگنے والے حشرات الارض کا کنبہ ہی انہیں عزیز ہے۔
کہانی بس اتنی ہے کہ چینٹاں روز مرہ کی طرح قطار بند ہوکر ایک کمرے کی جانب متوجہ ہوتی ہیں اور محسوس کرتی ہیں کہ جس مکان میں کبھی آدمی بھونے ہوئے گوشت اور شراب کا مزہ لیا کرتے تھے وہاں اب آدمی سور کے قالب میں ڈھل چکے ہیں۔تین منظر دیکھتے چلیں۔
‘ایک بڑی بوڑھی چینوٹی نے سب کی حیرت کو محسوس کرکے کہا کہ یہ سور ہیں ،جنھوں نے کچھ عرصہ پہلے آدمیوں کو یہاں سے نکال کر اپنی حکومت قائم کرلی”
“ہاں ،مجھے کچھ کچھ سمجھ آرہا ہے،ان سب کے چہرے آپس میں نہیں بدلے،آدمیوں کے پاس کئی چہرے ہیں،وہ سور ،بھیڑیے،کتے،ہاتھی،شیطان،دیوتا،سب کے چہرے رکھتا ہے،پریشانی صرف یہ ہے کہ سوروں کے کہاں سے آدمی کا چہرہ آگیا؟”
” تم دیکھنا،ابھی انہوں نے سور کا چہرہ پہنا ہے،کچھ دیر میں یہ بھیڑیے بنیں گے،پھر خوں خوار کتوں کی مانند ایک دوسرے پر غرائیں گے،پھر بد مست ہاتھی بن جائیں گے،پھر سوروں کی طرح اپنی اور دوسروں کی عورتوں کو بھنبھوڑ ڈالیں گے”
ان تین مناظر میں ہی آدمی کی جبلتیں اجاگر ہوجاتی ہیں۔اس تناظر میں ہندوستان کے چند دلدوز سانحات کی یاد تازہ ہوجانا لازمی ہے۔
دہلی کا ‘نربھیا سانحہ’اور “٢٠٠٢ کا گجرات سانحہ،پہلے واقعہ میں ملوث پانچ افراد کیا آدمی تھے ؟تصور کیجئے،ایک معصوم لڑکی کے ساتھ کی جانے والی درندگی کی سطح کیا تھی،جنگل کے جانور بھی فطری جبلتوں کے پاسدار نظر آتے ہیں،جس طرح حلال جانوروں کا استعمال ہم کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح وہ بھی اپنا شکار کیا کرتے ہیں،ان کے اس عمل میں فطری درندگی شامل ہے جسے دیکھ کر روز کا معمول سا ایک واقعہ نظر آئے گا لیکن جس طرح کی درندگی نربھیا کے علاوہ آئے دن اخبارات کی سرخیوں میں نظر آتی ہیں،وہ کس زاویہ سے آدمی کو آدمی کہنے پر مجبور کرسکتی ہے؟
گجرات سانحہ میں حاملہ عورت کے فوئٹس کو چیڑ پھاڑ کرنے والے آدمی ہی تھے،لیکن تصور کیجئے،کیا ان کا وجود کسی درندہ صفت جانور میں مبدل نہیں ہوچکا تھا۔ایسے درناک سانحات کی خبریں پوری دنیا سے ملتی رہتی ہیں،
ناصر عباس نیر بھلے ہی پاکستان کی شہریت رکھتے ہوں مگر فنکار ناصر عباس نیر کسی سرحد کا باشندہ نہیں ،فنکار آفاق پر نظر رکھتا ہے،کائنات کے چپے چپے پر اس کی نگاہ ہوتی ہے۔
تکنیک اور اسلوب نے افسانے کو فنی سطح پر انفرادیت عطا کیا ہے۔داستانوں کی جادگرنیاں اپنے منتر سے شہزادوں کو ہرن،طوطا اور بندر بنا دیا کرتی تھیں،پھر کوئی شہزادی سونے کا پانی چھڑک کر ان جانوروں کو انسان کے جون میں لے آتیں،ان کتھاوں سے استفادہ کرتے ہوئے انتظار حسین نے متعدد کہانیاں (آخری آدمی،مکھی وغیرہ) لکھیں،
کافکا نے میٹامورفوسس میں ایک کردار گریگور سیمسا کو مکڑے میں تبدیل ہوتے ہوئے دکھایا ہے ان دونوں پڑاؤ کا تخلیقی اختصاص یہ ہے کہ پہلے پڑاؤ میں زندگی اور جشن ساتھ ساتھ چلا کرتے ،جون بدلنے والے اکثر جانور PET ہوا کرتے ،ان میں درندگی نہیں ہوتی،آدمی کے سنسار کے سنگ چلنے والے جانور ہوا کرتے،
کافکا نے گھریلو مسائل کو موضوع بنایا،ایک سیلز مین پر ایک کنبے کا بوجھ تھا جس نے معمولی آمدنی کرنے والے ایک شخص کی ہئیت بدل ڈالی،درندگی اور وحشیانہ پن یہاں بھی نہیں،
انتظار حسین نے آخری آدمی میں قدرت سے مکاری کو درشایا ہے،آدمی کو بندر کے جون میں تبدیل کیا ہے،قرآن میں موجود ایک واقعہ کو انہوں نے مؤثر افسانہ بنا دیا ہے،اسی طرح دیگر افسانوں میں انہوں نے آدمی کی بےحسی کو موضوع بنایا ہے۔درندہ صفت جانور ان کے یہاں بھی نہیں،
ناصر عباس نیر کے افسانے کی فکری و معنوی سرحدیں پھیلی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔زیر مطالعہ افسانے کی معنویت کسی مخصوص خطے سے لاگ نہیں کھاتی،بلکہ عالمی پیمانے پر آدمی کے ساتھ آدمی کا غیر انسانی سلوک افسانے کا موضوع ہے جس کی پیشکش بالکل منفرد ہے۔
افسانے کے بیانیہ میں پیوست بعض مفکرانہ مکالمے افسانے کی فکری جہتیں مزید پھیلا دیتی ہیں۔مثلا
آدمی نے
“اصل لذت پر دماغ کی لذت کو ہمیشہ ترجیح دی ہے”
یا یہ مکالمہ
“اور (آدمی )جہاں بیٹھتے ہیں صرف دو طرح کی باتیں کرتے ہیں،جنس اور سیاست کی”
یہ دونوں مکالمے برصغیر کی معاشرت اور یہاں کے باشندوں کی نفسیات کو اجاگر کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
ناصر عباس نیر افسانے میں کسی مخصوص پلاٹ پر قصہ نگاری نہیں کرتے،ان کے افسانوں کے بیانیوں کے پرت پرت میں حیات و کائنات کے خراش زدہ چہرے نظر آتے ہیں،زیر مطالعہ افسانے میں انہوں نے اسلوبی طور پر نئے ذائقے سے ہم کنار کیا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply