پارہ نمبر نو کا خلاصہ(2)-افراءعبدالفرید

مضمون نمبر 6

ضرت موسی علیہ السلام کا کوہ طور پر بلاو142تا143
سورۃ اعراف کی آیت ۱۴۲ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کوہ طور پر بلاوے کا ذکر ہے ۔ فرعون اور اس کے لشکر کے غرق ہونے کے بعد ضرورت لاحق ہوئی بنی اسرائیل کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے کوئی کتاب انہیں دی جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے تیس راتوں کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر بلایا جس میں دس راتوں کا اضافہ کرکے اسے چالیس کردیا گیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جاتے وقت حضرت ہارون علیہ السلام کو جو ان کے بھائی بھی تھے اور نبی بھی ، انہیں اپنا جانشین مقرر کر دیا تاکہ وہ بنی اسرائیل کی ہدایت و اصلاح کا کام کرتے رہیں انہیں ہر قسم کے فساد سے بچائیں ۔ حضرت ہارون علیہ السلام خود نبی تھے اصلاح کا کام ان کے فرائض منصبی میں شامل تھا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے محض تذکرہ و تنبیہ کے طور پر یہ نصیحتیں کی تھیں ۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر گئے اللہ تعالیٰ نے وہاں ان سے براہ راست گفتگو کی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں اللّٰہ کو دیکھنے کا شوق پیدا ہوا جسکا اظہار انہوں نے رب ارنی کہہ کر کیا۔جس کے جواب میں اللّٰہ نے فرمایا لاترنی ( تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا) ۔اس سے استدلال کرتے ہوئے مسلمانوں کے ایک فرقے نے کہا ان نفی تابید ( ہمیشہ کی نفی کے لیے آتا ہے) اس لئے اللہ کا دیدار نہ دنیا میں ممکن ہے نہ آخرت میں لیکن اس فرقے کا یہ مسلک صحیح احادیث کے خلاف ہے متواتر صحیح اور قوی روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی دیدار الہی سے مشرف ہوں گے اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے اس روایت کا تعلق سے دنیا سے ہے۔دنیا میں کوئی انسانی اور اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے لیکن آخرت میں اللہ ان کی آنکھوں میں اتنی قوت پیدا فرمادے گا کہ وہ اس کے جلوے کو برداشت کر سکے ۔یعنی وہ پہاڑ بھی اللہ کی تجلی کو برداشت نہ کر سکا اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن سب لوگ بیہوش ہوں (یہ بے ہوشی ابن کثیر کے بقول محشر میں اس وقت ہوگی جب اللہ فیصلہ کرنے کے لیے نزول فرمائے گا) اور جب ہوش میں آئیں گے تو میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے ہوش میں آنے والا شخص ہوں گا ،میں دیکھوں گا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کا پایا تھا میں کھڑے ہیں ،مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آئے یا نہیں تو وہ خود ہی بے ہوشی کے بدلے میں میدان محشر بھی بے ہوشی سے مستثنیٰ رکھا گیا (صحیح بخاری)(23)
پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا ، بیشک آپ کی ذات پاک ہے ، میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں پہلے ایمان لانے والا ہوں۔ یہ ہم کلامی کا دوسرا موقع تھا جسے موسیٰ علیہ السلام کو مشرف کیا گیا اس سے قبل جب آگ لینے آئے تھے تو اللہ تعالی نے ہم کلامی سے نوازا تھا اور پیغمبری عطا فرمائی تھی(24)
مضمون نمبر 7

توریت کا نزول اور اس کی افادیت 144تا145

سورہ اعراف آیت ۱۴۴ سے توریت کا نزول اور اس کی افادیت بیان ہوئی ہے۔ اللّٰہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا اے موسیٰ علیہ السلام میں نے تجھے اہل زمانے میں سے منتخب کیا اور خاص تجھ سے کلام کر کے میں نے تجھے شرف نبوت اور حکمت عنایت فرمائی (اور شکر کرو) اس نعمت پر پس یہ عظیم نعمتوں میں سے کہا جاتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام عرفہ کے دن بے ہوش ہوکر گرے اور دس ذی الحجہ کو توریت ملی۔ اس لیے کہ ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے تابع تھے تو اصبطاء کو ان کے ساتھ خاص کر دیا.( 25)

(اور ہم نے ان چند تختیوں پر لکھ دی) الواح جمع لوح تصورات یہ دس تختیاں تھیں بعض نے کہا سات یہ زمرد کی بنی ہوئی تھیں دوسرا قول یہ ہے کہ لکڑی کی بنی ہوئی تھیں آسمان سے اتریں اور اس میں توریت درج تھی۔ یہ من کل شیُ کا بول ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان کے لیے ہر وہ چیز لکھ دی جس کی بنی اسرائیل کو مواعظ و تفصیل احکام میں ضرورت تھی ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ تورات ستر ہزار اونٹوں پر لادھی جاتی تھی ۔ اس کو مکمل چار ہزار آدمیوں نے پڑھا موسیٰ علیہ السلام ،عزیز علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام پس ہم نے انھیں کہا کہ اس کو عمل میں لائے۔ ( ۔26 )

اپنی قوم کو حکم دو کہ اس کے اچھے احکام پر عمل کرو یعنی اس میں جو احکام ہیں وہ احسن و حسن پر مشتمل ہیں۔ مثلاً قیاس لینا- معاف کرنا- بدلہ لینا-صبر کرنا- ان کو حکم دیں کہ ایسا حکم اپنائیں جو حسن میں زیادہ بہتر اور ثواب میں زیادہ ہو۔ جیسا کہ اس ارشاد میں (میں بہت جلد تمھیں ان نافرمانوں کا مقام دکھلاؤں گا) فرعون اور اس کی قوم کا علاقہ یعنی مصر اور عاد و ثمود کے مقامات اور ہلاک شدہ اقوام مکہ کس طرح یہ علاقے ان سے خالی ہوےُ تاکہ عبرت حاصل کریں ۔ ان کی طرح فسق اختیار نہ کریں نہ کہیں ان ہی دینوی نزانہ بھگتنی پڑے یا جہنم ٹھکانہ نہ بن جائے ۔ (27)

مضمون نمبر 8
تکبر کرنے والوں کا نتیجہ 146تا147
سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 146سے تکبر کرنے والوں کا نتیجہ بیان ہوا ہے۔ جو لوگ خدا اور پیغمبروں کے مقابلہ میں ناحق کا تکبر کرتے ہیں اور نخوت و غرور اجازت نہیں دیتا کہ احکام الہی کو قبول کریں۔ ہم بھی ان کے دل اپنی آیات کی طرف سے پھیر دینگے کہ آئندہ ان سے۔ منتفع ہونے کی توفیق نہ ہو گی ۔ ایسے لوگوں کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ خواہ کتنے ہی نشان دیکھیں اور کتنی ہی آیتیں سنیں ٹس سے مس نہ ہوں ، ہدایت کی سڑک کتنی ہی صاف ہوا س پر نہ چلیں ہاں گمراہی کے راستے پر نفسانی خواہشات کی پیروی میں دوڑے۔ چلے جائیں۔ تکذیب کی عادت اور غفلت کی تحاوی سے جب دل مسنخ ہو جاتا ہے، اس وقت آ دمی اس حالت کو پہنچتا ہے ) (تفسیرعثمانی )
– سا صرف یعنی اندرونی و بیرونی اور انفسی و آفاقی آیات پر غور کرنے اور ان سے عبرت اندوز ہونے سے پھیر دو گا ۔ یا اپنے نازل کردہ آیات اور معجزات کو باطل کرنے اور نور الہی کو پھونکیں مار کر بچھانے سے روک دوں گا۔ مطلب یہ کہ اپنی آیات کا بول بالا کروں اور ان کی تکذیب کرنے والوں کوہلاک کر دوں گا ( تفسیر مظہری) روح البیان میں ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ تکبر اور نخوت ایک ایسی بڑی فصلت ہے جو علوم ربانیہ کے لیے حجاب بن جاتی ہے کیونکہ علوم زبانیہ صرف اس کے رحمت سے حاصل ہوتے ہیں اور رحمت خد اوندی تواضع سے متوجہ ہوتی ہے مولانا رومی نے خوب فرمایا ہے: ہر کجاپستی سست آب آنجا رود
پر کجا مشکل جواب آنجا رود(معارف القرآن مفتی اعظم)
کریں گے وہ خدا کے یہاں قبول نہ ہوگا جیسا کرینگے ویسا بھرینگے با قی ان کے لیے جان اور مردہ نیکیوں کا جو بدلہ ملنا ہو گا دنیا میں ملتا رہے گا۔ (تفسیرعثمانی)
تو جو نیکیاں انھوں نے کی ہونگی سب اکارت جائیں گی غریبوں کو مال دینا کنبہ والوں کے ساتھ سلوک کرنا ۔ رشتہ داروں سے قطع تعلق نہ کرنا وغیرہ نیکیاں اس میدانی سراب کی طرح ثابت ہونگی جو دور سے پیاسے کو پانی دکھائی دیتی ہیں اور قریب پہنچتا ہے تو ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ انکاری ہے یعنی ان کو بدلہ نہیں دیا جائے گا۔ مگر انہی اعمال کا جو وہ دنیا میں کرتے تھے (تفسیر مظہری). (28)

مضمون نمبر9
بنی اسرائیل اور بچھڑے کی پوجا148تا154
سورة الا عراف کی آیت نمبر ۱۴۸ سے بنی اسرائیلیوں کا بچھڑے کو پوجنے کا ذکر ہے ۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کے (کوہ طور پر) جانے کے بعد اپنے زیورات سے ایک بچھڑا بنا لیا جس سے بیل کی جیسی آواز نکلتی تھی۔ انھوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ نہ ان سے کلام کرتا ہے اور نہ وہ انہیں کوئی ہدایت . ریتا ہے بہر حال انہوں نے اس کو معبود بنا لیا اور وہ ظالم بن گئے جب ان پر بات کھلی تووہ پچھتاتے اور انھوں نے سمجھ لیا کہوہ بھٹک گئے ہیں کہنے لگے کہ اگر ہمارے پر وردگار نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہماری مغفرت نہ کی تو ہم تباہ ہو جائیں گے(29)
۔ موسی علیہ السلام کو چونکہ طور پر ہی اللہ کی عطا سے اپنی قوم کا یہ کفر معلوم ہو گیا تھا اس لیے سخت غضب ناک ہو کر واپس آئے اور کہنے لگے کہ تم نے تو میرے بعد سخت نالا ئقی کی ، تم نے میرا انتظار بھی نہ کیا، ذرا سی تاخیر میں یہ ظلم ڈھایا غصے کے مارے تختیاں ہاتھ سے پھینک دیں کہا گیا ہے کہ یہ زمر با یا قوت یا کسی اور چیز کی تھیں سچ ہے جو حدیث میں ہے کہ دیکھنا سننا برابر نہیں اپنی قوم پر غصہ ہو کہر الواح ہاتھ سے گرا دیں ٹھیک بات یہی ہے اس خوف سے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے انھیں باز رکھنے کی پوری کوشش نہ کی ہو، آپ نے ان کے سر کے بالوں کے بل انھیں گھسیٹ لیا اور فرمانے لگے ، انہیں گمراہ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی تو نے میری ماتحتی میں انہیں کیوں نہ روکا؟ کیا تو میرے فرمان کا منکر بن گیا ؟ اس پر حضرت ہارون علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھائی جان میرے سر کے اور ڈارھی کے بال نہ پکڑیں ، میں نے تو ہر ممکن طریقے سے انھیں روکا زیادہ اس لیے نہ الجھا کہ کہیں آپ یہ نہ فرما دیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفریق ڈال دی ؟ تونے میرا انتظار کیوں نہ کیا؟ ور نہ میں تو ان گمراہوں سے اب تک زمین کو پاک کر چکا ہوتا، انھوں نے تو مجھے کچھ بھی نہ سمجھا بلکہ میرے قتل کے درپے ہولئے آپ مجھے ان ہی کی طرح نہ سمجھیں نہ ان میں ملائیں۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کی برات کی تحقیق ہو گئی اللہ کی طرف سے بھی ان کو پاک دامنی اور بے قصوری معلوم ہو گئی کہ انھوں نے۔ پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ افسوس تم فتنے میں پڑ گئے اب بھی کچھ نہیں بگڑا تم میری مان لو اور پھر سے میرے تابع دار بن جاؤ تو آپ اللہ سے دعائیں کرنے لگے (30 )
پھر ان گنٹھ سالہ پرستوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا جب تک ان لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کو قبول نہ کر لیا ان کی توبہ قبول نہ ہوئی جیسے کہ سورہ بقرہ کی تفسیر میں تفصیل واربیان – ہو چکا ہے کہ انھیں حکم ہوا تھا کہ اپنے خالق سے تو بہ کرو اور آہیں میں ایک دوسرے کو قتل کرو یہی تمھارے حق میں ٹھیک ہے پھر وہ تمہاری توبہ قبول فرمائے گا، وہ قبول کرنے والا اور رحم وکرم کر نے والا ہے اسی طرح دنیا میں بھی ان یہودیوں پر ذلت نازل ہوئی پر ہر بدعتی کی جو اللہ کے دین میں جھھوٹا طوفان اٹھائے یہی سزا ہے،رسول کی بدعت اور مخالفت کا بوجھ اس کے دل سے نکل کر ان کے کندھوں پر آپڑتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم پر جو غصہ تھا وہ جاتا رہا تو انھوں نے وہ تختیاں اٹھا لیں جو سخت غصے کی حالت میں ان کے ہاتھ سے زمین پر گر گئی تھیں اور ان تختیوں میں رحمت و ہدایت پائی۔ اس میں آپ نے دیکھا کہ ایک امت تمام امتوں سے بہتر ہوگی۔ جو لوگوں کے لیے قائم کی جائے گی ، جو بھلی باتوں کا حکم کرے گی اور برائیوں سے روکے گئ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ اے اللہ میری امت کو یہی امت بنادے جواب ملا کہ یہ امت احمد ہے (صلی اللہ علیہ وسلم) پھر پڑھا کہ ایک امت ہوگی جو دنیا میں سب سے آخر میں آئے گی اور جنت میں سب سے پہلے جائے گی تو بھی آپ نے یہی درخواست کی اور یہی جواب پایا۔ پھر پڑھا کہ ایک امت ہوگی جن کی کتاب ان کے سینوں میں ہوگی جس کی وہ تلاوت کریں گے یعنی حفظ کریں گے اور دوسرے لوگ دیکھ کر پڑھتے ہیں ۔ اگر ان کی کتا بیں آٹھ جائیں تو علم جاتا رہے کیوں کہ حفظ نہیں ۔(31)
اس طرح کا حافظہ اس امت کے لیے ہے کسی اور امت کو نہیں ملا اس پر بھی آپ نے یہی درخواست کی اور یہی جواب ملا : پھر دیکھا اس میں لکھا ہوا ہے کہ ایک امت ہوگی جو اگلی پچھلی تمام کتابوں پر ایمان لائے گی اور گمراہوں سے جہاد کرے گی یہاں تک کہ کانے دجال سے جہاد کرے گی اس پر بھی آپ نے یہی دعا کی اور یہی. جواب پایا، پھر دیکھا کہ ایک امت ہوگی جو اپنے صدقے آپ کھائے گی اور اجر بھی پائے گی حالانکہ جو اور امتیں صدقہ کرتی ہیں اگر قبول ہوا تو آگ آکر اُسے کھا گئی اور اگر نہ قبول ہوا تو اسے درندوں پرندوں نے کھا لیا اللہ نے تمھارے صدقے تمہارے مالداروں سےمفلسوں کے لیے لیے ہیں۔ اس پر بھی کلیم اللہ علیہ السلام نے ہیی دعا کی اور یہی جواب ملا۔ پھر پڑھا کہ ایک امت ہوگی جس کار کن اگر نیکی کا ارادہ کرلے پھر نہ کرے تو بھی نیکی لکھ لی جائے گی اور اگر کر بھی لی تو دس نیکیاں لکھ دی جائیں گی۔ سات سو تک اسی طرح بڑھتی چلی جائیں گی اس پر بھی آپ نے ہی دعا کی اور یہی جواب پایا، پھر ان تختیوں میں آپ نے پڑھا کہ ایک امت ہوگی جو خود شفاعت کرے گی اور ان کی شفاعت دوسرے بھی کریں گے۔ آپ نے پھر یہی دعا کی کہ اے اللہ یہ مرتبہ میری امت کو دے – جواب ملا یه امت احمد ہے (صلی اللہ علیہ وسلم) اس پر آپ نے تختیاں لے لیں اور کہنے لگے اے اللہ مجھےامت احمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کردے(32)

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply