اخلاقیات اور جمہوری اقدار

میں نے سوچا تھا کے آج الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والے مختلف پروگرامز پر علم و دانش اور ملکی و غیر ملکی سیاست پر دانشوری کا پاٹ پڑھانے والے لاہور اور ملتان کے مشہورِ زمانہ اسٹیج اداکاروں کے بارے میں لکھوں گا.
میں چاہتا تھا کے ان لوگوں کو بارے میں آج لکھوں جو ایسے عجیب و غریب پروگرامز کرتے ہیں جن میں وہ ماضی کی خواتین اداکاراؤں کو اپنے یساتھ ملا کر عظیم کلا کاروں سمیت باعزت افراد پر ذو معٰنی جملے کستے ہیں مزیدار بات تو تب ہوتی ہے جب سامنے مسند پر براجمان ایک خاتون/ مرد اینکر صاحب اپنا ڈرامائی انداز والا غصہ دکھاتے ہوئے میراثیوں کو شٹ اپ کال دیتا ہے جس پر عجیب و غریب قسم کا مزاحیہ اور گھٹیا طنز اینکر موصوف کو جواباً سننے کو مل جاتا ہے اور نا صرف وہ اس غلیظ طنز پر خود بھی ہنستا ہے بلکہ سامنے بیٹھی نئی نوجوان نسل بھی زو معٰنی جملے میں چھپی حساسیت کو سمجھتے ہوئے ہنسی میں لوٹ پھوٹ ہوجاتی ہے۔


افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم صرف اپنے آپ کو قابل زہین اور عقلمند سمجھنے لگے ہیں اگر آپ ایسے پروگرامز کو بغور دیکھیں تو آپ کو یقیناً یہ محسوس ہوگا کہ جو صاحب مرکزی کرسی پر براجمان ہیں وہ اکثر اوقات اپنی ہی قابلیت کے ہاتھوں رسوا ہو جاتے ہیں۔


یہ معاملہ صرف پاکستانی میڈیا اور اس میں کام کرنے والے چند زبردستی کے دانشوروں کا ہی نہیں بلکہ یہ سوچ معاشرے کے ہر شعبے میں گھر کر چکی ہے.
پاکستان کی سیاست میں بھی ایسے چند مزاحیہ کردار موجود ہیں جو اپنے میراثی پنے کی بدولت مخالف پارٹی کے لوگوں کو نشانہ بنانے میں اس حد تک جملہ بازی کرتے ہیں کہ انہیں اس بات کا بھی خیال نہیں رہتا کے وہ بولنے کے دوران کسی باعزت خاتون کسی شریف انسان یا کسی کی چادر اور چار دیواری کا بھی کوئی پاس نہیں رکھ سکے۔

دو نومبر کے حوالے سے عمران خان نے جب سے اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی بات کی ہے تب سے ہی میڈیا پر کئی سیاستدان ایک دوسرے پر جملے کستے ہوئے مل رہے ہیں وہ اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ سامنے بیٹھے صحافی حضرات کو مجبوراً یہ بتانا پڑجاتا ہے کہ " سر پروگرام لائیو " جارہا ہے.
یہ کیسے لوگ ہیں….!! یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ ان افراد کے ہاتھوں ہمارا معاشرہ بجائے سدھرنے کے تیزی کیساتھ پستی کا ہی شکار ہوتا جارہا ہے.

کوئی دور تھا جب ٹی وی کے ٹاک شوز میں ادب آداب کا دور دورہ ہوا کرتا تھا کیا حسین لوگ ہوا کرتے تھے وہ جن کی زبان کی شائستگی کی بدولت سرِ شام ہی عوام گھروں کو محدود ہوجاتی تھی اور جب تک انکا پروگرام چلتا رہتا عوام ٹکٹکی باندھے ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھی رہتی۔
کتنا حسین دور تھا وہ جب سیاستدان بھی تربیت یافتہ ہوا کرتے تھے ادب آداب کو ہمیشہ سر آنکھوں پر رکھا کرتے.

پاکستان کے ماضی نے معراج محمد خان اور حنیف رامے جیسے لوگ بھی دیکھے ہم ہی وہ ہیں جن کے ماضی نے نوابزادہ نصراللہ خان جیسے شائستہ طبیعت خوبصورت مزاج لوگ اس ملک کی سیاست میں صرف اپنی شرافت کی وجہ سے ہمیشہ باعزت مقام پر براجمان رہے.
ایسی کئی مثال ہیں جو ہمارے خوشگوار ماضی کا حصہ ہیں مگر دورِ حاضر میں آج ہم جس نہج پر پہنچ چکے ہیں وہ ہمارے ماضی سے یکسر مختلف ہے.

بہت افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم کسی بھی اخلاقی محاز پر بجائے کامیاب ہونے کے بالکل ناکام ہوچکے ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کے ہم اپنے آنے والے مستقبل سے مکمل شرمندہ ہیں.
آج ایسی ہی زبان استعمال کرتے ہوئے پریس کانفرنس کے دوران ایک وفاقی وزیر موصوف نے چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کے لیے ایسی نازیبا زبان استعمال کی جسے سن کر انکی سیاسی و اخلاقی تربیت خود انکے لیے سوالیہ نشان بن گئی۔

ایک ایسا ہی افسوس ناک معاملہ اب سے کچھ دیر قبل اسلام آباد میں ہوا جہاں پی ٹی آئی کے یوتھ ورکرز کنوینشن پر اسلام آباد پولیس نے دھاوا بول ڈالا اور کئی ورکرز گرفتار کر کے بھیڑ بکریوں کی طرح گھسیٹتے ہوئے پولیس موبائل میں ڈال دیئے گئے۔
اس دوران قانون کی محافظ پولیس نے ادب و آداب کو بلکل ایک طرف رکھ کر کاروائی کی کسی بھی صحافی کو صحافی سمجھا اور نا ہی کسی خاتون کی تمیز رکھی۔

دنیا میں شاید پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں بغیر کسی پابندی کے آزادی کیساتھ صرف " پابندی کے دائرے " میں آئی ہوئی تنظیموں کو ہی کھلے عام اجتماعات کرنے کی اجازت ہے۔
بلکہ کئی جگہ تو خود پولیس ایسے لوگوں کو تحفظ فراہم کرتی نظر آتی ہے جو معاشرے کے لیے ھائی رسک ہوتے ہیں۔

مگر یہاں نہیں اجازت تو صرف سوال کرنے کی اجازت نہیں.
یہاں نہیں اجازت تو ان دانشوروں کو اجازت نہیں جو آزادی کیساتھ معاشرے کی تعلیم و اخلاقی تربیت کر سکیں،
اس ملک میں اجازت نہیں تو حکمرانوں کی کرپشن اور عوامی معاشی قتلِ عام کے خلاف آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں!!

اور جب بھی عوام کرپشن کے خلاف آواز بلند کرے تو عوامی ردِ عمل کے جواب میں وفاقی حکومت کی جانب سے یہ بار بار کہا جاتا ہے کہ فلاں پارٹی کے رویے سے جمہوریت کو شدید خطرہ ہے۔
شاید ہر بار کی کرپٹ ظالم و جابر حکومت یہ بھول جاتی ہے کہ یہ ہی وہ بے بس لاچار اور مفلس عوام ہے جس نے پاکستان میں جمہوریت کے لیے جتنی قربانیاں دی ہیں اتنی شاید ہی کسی لیڈر اور اسکے اہل و اعیال نے دی ہوں گی۔

یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں ایک نام نہاد عوامی لیڈر دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں پتی بن جاتا ہے اور اس سے سوال کرنے کی پاداش میں مفلس و نادار عوام کو جمہوریت دشمن قرار دیکر بے دردی سے مارا پیٹا جاتا ہے۔
یہ ہی نہیں بلکہ جان سے مار دینے پر بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لواحقین آج بھی اپنے پیاروں کی جدائی کے غم سے باہر نہیں آسکے۔
دو نومبر بھی آرہا ہے آج اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے یوتھ کنوینشن پر پولیس کی لاٹھی چارج اور بےجا گرفتاریوں نے مجھے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا بھولا ہوا ہر وہ لمحہ یاد دلا دیا۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کے میرے مالک اس ملک کو ظالموں سے نجات دلا اس ملک کو دورِ حاضر کے یزیدوں و فرعونوں کے چُنگل سے پاک کر اور دو نومبر اور اسکے بعد بھی اس ملک کی غریب عوام کو جو صرف اپنا جائز حق مانگنے اپنے بادشاہوں سے انکا کمائے ہوئے کالے دھن کا حساب مانگنے آرہے ہیں انہیں حکومت کے ہر طرح کے ظلم و جبر سے اسکے عتاب سے محفوظ رکھے آمین۔

Facebook Comments

رضاشاہ جیلانی
پیشہ وکالت، سماجی کارکن، مصنف، بلاگر، افسانہ و کالم نگار، 13 دسمبر...!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply