ٹر گئی کیسی بھری بھرائی۔۔فاخرہ نورین

میرے پیارے بیٹے تمہاری آنکھوں پر مٹی پڑے گی تو میں کیسے سوسکوں گی۔
میرے بچے تیری آنکھوں نے مجھے زندگی کے رنگ دکھائے تھے، میں اب ان آنکھوں کے بغیر دنیا کو کیسے دیکھ سکوں گی۔
میرے پیارے میرے پہلے بچے، میں ابھی تک اپنی بہن کی جواںمرگی کو رو رہی تھی ارے میں تمہیں کیسے روؤں تمہیں تو پتہ بھی نہیں موت کیا ہوتی ہے ۔
اونچی لمبی، خوبصورت اور طرح دار عورت،
عورتوں کے جھرمٹ میں بیٹھی، بیٹے کی آنکھوں کو بار بار چومتی۔۔

تم کینسر سے مرنے والے اپنے کم سن کو رو رہی تھیں اور میں صرف تمہارے ان غیر روایتی بینوں پر ٹوٹتی جاتی تھی ۔ سسرالی گاؤں میں روایتی اور رٹے رٹائے بین کرتی عورتوں کو سنتے دیکھتے جب میں نے تمہیں روتے دیکھا تو مجھے لگا جیسے میرا بیٹا آٹھ نو سال کا ہو کر مر گیا اور میں ایسے پھوٹ پھوٹ کر روئی کہ تم نے مجھے چونک کر دیکھا ۔
میری ہمت نہیں ہوئی میں تم سے گلے مل کر تمہارے بیٹے کو رو سکوں۔ تمہارے سارے بین میں نے اپنے اندر رکھے اور جب میرا باپ مرا تو میں ایسے روئی جیسے تم اپنے بیٹے کو روئی تھیں ۔
اگلی بار میں تمہیں ملنے افطاری پر گئی تو تم نے کیسی خوشی سے مجھے بتایا
فاخرہ اللہ نے مجھے پھر امید لگائی ہے اور وہ مجھے میرا بیٹا واپس کرے گا ۔

ہم نے کتنی باتیں کیں اور قمر عباس کو میں نے تم پر واری صدقے ہوتے دیکھا تو تم سے مذاق کرتی رہی ۔
تم جو خود سلیقہ مند تعلیم یافتہ اور فنکار تھیں، اپنی بیٹی حوریہ کی تربیت کیسے عمدہ طریقے سے کر رہی تھیں، تم جس کا وجیہہ مر گیا تھا لیکن جو خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہوئی تھیں حالانکہ چند مہینوں کے دوران پنے والد، بیٹے، بہن اور والدہ کو کھونے کے بعد اب سسر کا ماتم کر رہی تھیں ۔ میں تمہاری آزمائشوں کے خاتمے اور تم میرے صاحب اولاد ہونے کی دعائیں کرتی رہیں ۔
اللہ نے تمہیں وجیہہ لوٹایا تو میں تمہاری خوشیوں میں شریک ہونے بھاگی ۔تم نے اپنا بیٹا میری گود میں یہ کہہ کر دیا ۔
میرا بیٹا بڑا نیک ستارے والا ہے، اس نے مجھے مایوسی کے اندھیرے سے نکالا ہے، تم اسے گود لو، یہ دعا کی طرح سے ہو گا ۔

میں تمہارے سلیقے، محبت اور تم دونوں کی محبت کے قصیدے پڑھتی ہوئی نکلی۔
مجھے سلیقہ مند، پڑھی لکھی اور گھر کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کی زندگی میں نظر آتی عورتیں بہت پسند ہیں، تم ویسی ہی تھیں، خوبصورتی، مصوری اور خوش گفتاری اضافی خوبیاں تھیں ۔
قمر عباس کی وجہ سے میں اور زبیر ایک دوسرے سے ملے، وہ ہمارے نکاح کا گواہ تھا اور دونوں کا مشترکہ دوست بھی ۔سو تم تو مجھے اس رشتے سے بھی عزیز ہوتیں، لیکن تم اپنی ذات کی بدولت مجھے بہت پیاری ہوئیں۔
اتنے اپنوں کو کھونے کے بعد بھی خدا کی شکر گزار عورت۔

تمہیں کینسر کی تشخیص ہوئی تو تم نے کہا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا، اور سب ٹھیک ہونے بھی لگا۔
میں نے رپورٹ کے متعلق سن کر قمر عباس کو فون کیا تو شکر کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی کی آزمائشوں کے خاتمے کی کتنی دعائیں بھی کیں۔
اور ابھی جب میں گاؤں اور زبیر پنڈی ہے تو کیسی روح فرسا خبر مجھے سننے کو ملی کہ کینسر نے تمہیں کھا لیا ۔
میری پیاری لڑکی، مجھے لگا ہے کہ میں مر گئی ہوں ۔
مجھے لگا ہے کہ میرے دوست، میرے بھائی کا گھر نہیں اجڑا، اس کی زندگی کا مرکزہ ہل گیا ہے ۔

میں تمہیں کیسے روؤں میری پیاری
میں تو ابھی تک اپنے باپ کی موت قبول نہیں کر پائی، میں تمہیں کیسے روؤں جسے دیکھ کر مجھے لگتا تھا کہ یہ میں روتی ہوں ۔
تم اتنی چھوٹی سی زندگی میں اتنی محبت اور اتنے دکھ اٹھا کر کہاں چل پڑی ہو یار
او پھولوں سے بھرے گھر والی سگھڑ سلیقہ مند لڑکی، کیسا پھوہڑ پن کر چلی ہو
یوں بھرا بھرایا میلہ چھوڑ کر بھی کوئی اٹھتا ہے یار
پورے دن میں نے شِو کمار کو دوہراتے گزارا
اساں تے جوبن رتے مرنا

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر ہر بار سوچا
میں تو اب جوان نہیں رہی کہ مروں تو جوبن رت کہی جائے۔
لیکن اب سمجھ آئی کہ تم کیسی بھری بھرائی گرہستی سے اٹھ کر چل دی ہو
ماب جو تم مر گئی ہو یعنی میں مر گئی ہوں تو میں تمہیں ایسے رو رہی ہوں جیسے جوانمرگ کو گاؤں کی عورتیں بین کر کر روتی ہیں ۔
شالا جوانیاں مانڑے ہا
شالا نت پئی وسیں ہا
میرے ویر دی سوہنی ووہٹی
میری پھلاں جوگی بھابھی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply