یادیں دھندلی سی/شہزاد ملک

پنجاب کا شہر شاہ پور میرے بچپن کی انمٹ یادوں کا حصہ ہے چکوال کے قصبے ڈوہمن سے تبدیل ہوکر ابا جی کی پوسٹنگ شاہ پور میں ہوئی رہائش کے لئے ایک دو منزلہ گھر کا اوپر والا حصہ کرائے پر لیا گیا اور ہم چھ لوگ وہاں چلے آئے میں امی ابا جی میرے دونوں چچا اور نو دس ماہ کا بھائی بڑی سہولت سے اس گھر میں سما گئے نچلی منزل میں فرنٹ پر حلوائی کی دوکان اور پچھلے حصے میں مالک مکان اپنے کنبے کے ساتھ رہائش پذیر تھا عمر کے ابتدائی پانچ چھ سالوں کی یادداشت اتنی ہی ہوتی ہے کہ مقامات واقعات اور پیش آمدہ حالات کی دھندلی سی تصویریں تو ذہن محفوظ کر لیتا ہے مگر تفصیلات یاد نہیں رہتیں یہ تو یاد ہے کہ شہر کا وہ حصہ شاہ پور شہر کہلاتا تھا مگر وہ اس کا کونسا علاقہ تھا یہ یاد نہیں بس وہ ایک کشادہ بازار تھا جہاں دو دو منزلہ عمارتوں کے نیچے دوکانیں اور اوپر رہائشی گھر تھے صبح کی روشنی ابھی پھیلی نہ ہوتی کہ ماشکی پورے بازار کی سڑکوں پر چھڑکاؤ کرتے اور خاکروب جھاڑو سے صفائی کردیتے زندگی کی چہل پہل شروع ہونے سے پہلے گلیاں بازار صاف ستھرے پانی اور مٹی کے ملاپ سے اٹھتی مسحور کن خوشبو سے مہک رہے ہوتے نیچے سائیکلوں کے پیچھے بندھی پیٹیوں میں رس ڈبل روٹی انڈے اور مکھن کی ٹکیاں بیچنے والے دو تین آدمی باری باری آوازیں لگاتے ہوئے گذرتے نیچے حلوائی کی دوکان پر دودھ دہی لینے والوں کا رش لگ جاتا اور بلو حلوائی بڑی چابکدستی سے گاہکوں کو بھگتا رہا ہوتا میرا بھائی بڑا پیارا تھا گول مٹول گورا چٹا سبزی مائل براؤن بڑی بڑی آنکھوں والا کچھ ہی دنوں میں بلو حلوائی سمیت وہاں رہنے والوں کا بڑا چہیتا ہوگیا میرے چچا سکول سے آکر یا ابا جی دفتر سے آکر بھائی کو گود میں لے کر نیچے بازار میں لے جاتے تو سب لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ گود میں لے کر پیار کرتے اور وہ اپنی توتلی باتوں سے سب کو محظوظ کرتا بلو حلوائی تو اس کا اتنا دیوانہ تھا کہ جب وہ توتلی زبان میں کہتا بلو دودھو پاپا دے دو اور وہ جھٹ سے رس ڈبل روٹی رکھنے والے جالی دار بڑے سے خانے میں اسے گھسا دیتا ابا جی منع کرتے رہتے کہ بچہ ہے تمہارے رس توڑ کر نقصان کرتا ہے لیکن بلو اس کی پرواہ نہیں کرتا تھا کہتا کوئی بات نہیں باؤ جی (اس وقت لوگ سرکاری ملازم کو ذیادہ تر باؤ جی کہا کرتے تھے ) توڑنے دیں جتنے توڑتا ہے
ہم نے اپنے دادا سے لے کر ابا جی چچا پھوپھیوں تک سب کو بچوں سے بہت پیار کرتے دیکھا ہے سب نے اپنے بچے پھولوں کی طرح پالے اباجی نے بھی اپنی اولاد کو سکول جانے کی عمر تک بہت لاڈ میں رکھا دن اور رات کے کسی بھی حصے میں اباجی سے اپنی فرمائشیں منوائی جاسکتی تھیں آگے ابا جی کی اولاد یعنی ہم بھائی بہنوں نے بھی اپنے پرائے ہر قسم کے بچوں سے بہت پیار کیا
شاہ پور بازار کے پہرے کے لئے رات کو چوکیدار جب اپنی لاٹھی کھٹکھٹاتا ہوا بازار میں ادھر سے ادھر چکر لگاتا تو میرا پیارا بھائی اٹھ کر بیٹھ جاتا اور اباجی سے ضد کرتا کہ مجھے نیچے لے کر جائیں میں نے “ کتو “ دیکھنا ہے وہ چوکیدار کو کتو کہا کرتا تھا اباجی اٹھ کر کپڑے بدلتے اور ماتھے پر بل ڈالے بغیر اس کو گود میں اٹھا کر سیڑھیاں اتر جاتے اور جب چوکیدار لاٹھی بجاتا آتا تو بھائی صاحب اس کی طرف لپکتے اس کے پاس گیس کا لیمپ ہوتا جو اس کی دلچسپی کا باعث تھا
جیسے ہی بچے سکول جانا شروع ہوجاتے تو ابا جی کی شفقت تحکم میں بدل جاتی اور ان کا سارا دھیان بچوں کی تعلیم وتربیت پر ہو جاتا پھر اباجی پر وہ مقولہ صادق آتا کہ کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ اس پر انہوں نے پورا عمل کیا اپنی اولاد کو بہترین تعلیم دلائی اور ہر اخلاقی برائی سے بچا کر رکھا آج جب سب بہن بھائی اپنی اپنی جگہ پر سیٹ ہیں کوئی کسی کا محتاج نہیں تو ابا جی کا سخت رویہ یاد آتا ہے ہم سب ان کے شکر گذار ہوتے ہیں کہ ان کے اسی سخت رویے نے کسی کو راہ راست سے بھٹکنے نہیں دیا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply