رودادِ سفر(1)۔۔شاکر ظہیر

ہم ہیں خیال یار ہے ،ہم کو جہاں سے کیا
یہ رازِ عشق ہے ،اسے کہیے زباں سے کیا
میرا نام شاکر ظہیر اور تعلق ٹیکسلا شہر سے ہے ۔ ہمارے آبا ؤ اجداد پاکستان بننے سے بہت پہلے ، بارہ مولا جموں وکشمیر سے یہاں ٹیکسلا منتقل ہوئے تھے ۔ان کا تعلق کشمیر کے ممتاز اور اعلیٰ علمی و مذہبی روایات کے حامل خاندان سے تھا۔ اسی نسبت سے ہمارے والد گرامی بھی مذہبی رحجان رکھتے تھے۔ ہمارے گھر میں قرآن کی دیگر تفاسیر کے ساتھ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی شہرہ آفاق تفسیر “تفہیم القرآن” اور ان کی دیگر چند کتب بھی موجود تھیں ،جن کا وہ باقاعدگی کے ساتھ مطالعہ کرتے ۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ کے بارے میں ان کی ارادت و عقیدت کو پہلی ملاقات میں ہی محسوس کیا جا سکتا تھا ۔ مجھے بھی مولانا مودودی اور ان کی جماعت کا تعارف اپنے والد ہی کے ذریعے سے ہوا ۔ اس دور میں مولانا مودودی کی کتب کے علاوہ بھی ایک کتاب “محسن انسانیت” والد کے ایک دوست نے مجھے تحفہ دی ۔ محترم نعیم صدیقی کی تحریر کردہ اس کتاب نے مجھے بہت متاثر کیا ۔

ہمارے والد تجارت کے پیشے سے وابستہ رہے ۔ ان کی ٹیکسلا کے پرانے بازار میں ایک چھوٹی سی دکان تھی ۔ میں بھی پڑھائی سے فراغت کے بعد کبھی کبھار ان سے ملنے یا کسی ضرورت کے تحت دوکان پر چلا جاتا ۔ دکان پر جماعت اسلامی کے رفقاء اکثر اوقات والد سے ملنے آتے اور اس طرح میری بھی ان سے ملاقات ہو جایا کرتی تھی ۔ اس دوران مجھے ان کی بات چیت سننے کا موقع بھی ملتا ، جس سے مجھے جماعت اسلامی کی دعوت میں کسی قدر دلچسپی ہونے لگی ۔ میٹرک کے امتحانات تک میں جماعت کی دعوت سے کافی حد تک واقف ہو چکا تھا۔ کالج پہنچنے پر اسلامی جمعیت طلبہ سے بطور ” رفیق” منسلک ہو گیا ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد میں جماعت اسلامی کا باقاعدہ رکن بن چکا تھا ۔

عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے میں نے اپنے کیرئیر کے حوالے سے کافی غور کیا اور عزیزو اقارب سے مشورے بھی کیے ۔ مجھے پاکستان میں جاب یا بزنس کرنا پسند نہیں تھا ۔ ایک خواہش تھی کہ بیرون ملک جانے کا موقع ملے اور میں کسی جاب یا بزنس کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی سیر و سیاحت بھی کروں اور ان کی تہذیب و مذاہب کا مطالعہ و مشاہدہ بھی کرسکوں۔ اسی شوق اور لگن میں اللہ نے مدد کی اور میں تائیوان پہنچ گیا۔ تائیوان میں بہت اچھا وقت گزرا ۔وہاں کی باتیں ، یادیں اور داستانیں بڑی انوکھی اور دلچسپ ہیں ۔ بیان کا کبھی موقع ملا تو امید ہے کہ انہیں سننے پڑھنے والے ضرور حظ اٹھائیں گے ۔ میں نے تائیوان میں کم و بیش پانچ سال گزارے ۔ تائیوان سے واپسی پر کچھ وقت پاکستان گزارا لیکن یہاں پر قرار نہیں آیا اور بہت جلد چا ئنا کی طرف رخت سفر باندھا ۔ چائنہ کے جس مقام پر میں نازل ہوا ،اسے آیوو کہتے ہیں ۔ یہ قصبہ نما شہر ہے جہاں چھوٹی اور گھریلو صنعتوں میں بنی اشیاء کی بہت بڑی مارکیٹ ہے ۔ زبان کے حوالے سے خاص مشکل پیش نہ آئی ، کیونکہ تائیوان میں رہنے کی وجہ سے میں چائنیز زبان روانی سے بول سکتا ہوں ۔ بزنس کے حوالے سے ابتدائی وقت کچھ کٹھن تھا ، لیکن بہت جلد میں وہاں اپنا بزنس سیٹ اپ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
2008 کے ابتدائی عرصے میں ایک نئی آبادی میں کرایہ کا مکان ڈھونڈتے ہوئے ، میری ملاقات ایک لڑکی ماریا سے ہوئی ۔ میں اسی آبادی کے قریب ایک جگہ پریشان کھڑا تھا کہ ماریا نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مجھ سے پریشانی کی وجہ پوچھی ۔ میں نے چائنیز میں اسے اپنا مسئلہ بتایا کہ میں کرائے کا مکان دیکھ چکا ہوں اور مالک مکان کو کچھ رقم پیشگی بھی دے چکا ہوں لیکن کافی تلاش کے باوجود اب مجھے وہ مکان نہیں مل رہا ۔میرے پاس مالک مکان کا نمبر تھا اس نے فون پر اس سے پتہ پوچھا اور مختلف گلیوں سے گزرنے کے بعد مجھے ایک مکان کے سامنے کھڑا کر کے اشارہ کیا کہ یہ وہ بلڈنگ ہے ۔ مالک مکان سے ملاقات اور کرائے کے معاملات طے کرنے کے بعد میں بلڈنگ سے اترا تو ماریا بھی سامنے والی بلڈنگ سے اتر رہی تھی ۔ مجھے دیکھ کر رکی تو میں نے پوچھا کہ مین روڈ تک جانے کا آسان رستہ کون سا ہے؟ اس نے کہا کہ میں بھی وہیں جا رہی ہوں ، آئیں اکٹھے چلتے ہیں۔

یوں اس پہلی ملاقات کا خوشگوار نتیجہ اگست 2008 ء میں ہماری شادی کی صورت میں نکلا ۔ ماریا کا تعلق چائنہ کے صوبے کانسو سے ہے اور وہ اس وقت ایک پینٹ بنانے والی کمپنی میں کام کرتی تھی ۔ اس کا مذہب کنفیوشس تھا لیکن اس میں تاؤ ازم اور تبت کے بدھ ازم کی آمیزش بھی تھی ۔ شادی سے پہلے میں نے اس سے کبھی مذہب کے متعلق بحث نہیں کی ۔ تاہم وہ خود مسلمان عورتوں سے ہمارے مذہب کے بارے میں پوچھتی رہی ۔ اس نے میری خاطر اپنا آبائی مذہب چھوڑا اور مسلمان ہو گئی ۔ عبادات اور معاملات میں وہ میری تقلید کرنے لگی اور میرے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے کےلیے مسجد بھی جایا کرتی۔

یوں یہ خوشگوار لمحات بڑی تیزی سے گزرتے رہے۔ ہماری بڑی بیٹی جب چار سال کی ہوئی تو میری بیگم ماریا نے اپنی ایک دوست کے ذریعے اسے مسلمانوں کے سکول میں داخلہ کروا دیا ۔ یہ سکول ویت نام کے ساتھ چائنا کے سرحدی علاقے کے قریب ایک قصبے میں واقع ہے ۔ ایک سال بعد میری بیگم بھی وہیں منتقل ہو گئی ۔ یہ کوئی پندرہ ہزار کی آبادی پر مشتمل ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس میں تقریبا ً ساڑھے تیرہ ہزار مسلمان مقیم ہیں اور چائنا کی سب سے بڑی مسجد وہاں تعمیر کی گئی ہے ۔ مساجد کے علاوہ دینی تعلیم کے لیے وہاں چھوٹے چھوٹے مدارس بھی قائم کیے گئے ہیں، جہاں چائنہ کے مختلف علاقوں سے لوگ اسلام کے بارے میں کچھ پڑھنے سیکھنے کے لیے جاتے ہیں ۔ میری بیگم ماریا نے بھی ایک مدرسے کی کلاس میں بیٹھنا شروع کر دیا۔ ان مدارس میں مذہب کے ساتھ ساتھ فقہی مباحث اور پھر مسلمانوں میں پھیلی مسلمانوں کی تہذیبی روایات جنہیں بالعموم دینی روایات ہی سمجھا جاتا ہے ، پڑھی اورپڑھائی جاتی ہیں ۔ ان مباحث کو سن کر پہلی بار میری بیگم کے ذہن میں اسلام کے بارے میں کچھ سوالوں نے جنم لینا شروع کیا۔ درآں حالیکہ چائنہ کے اکثر لوگ اسلام کے بارے میں نہ صرف کافی کچھ جانتے ہیں بلکہ ان کےتبصرے بھی سننے کے لائق ہیں۔

چائنا میں اکثر سفر ہم ٹرین سے ہی کرتے تھے۔ بعض اوقات ان ٹرینوں میں جب میں اکیلا غیر ملکی ہوتا، تو پاس بیٹھے چائنیز میں سے کوئی نہ کوئی اسلام کے متعلق اپنے تبصرے سے ضرور نوازتا ۔ چائنا کے زیادہ تر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ مسلمان بہت جھگڑالو ہیں، مذہب کے نام پر پوری دنیا میں قتل عام اورغارت گری مچا رکھی ہے ۔ غیر مسلم ہی نہیں خود مسلمان بھی مسلمانوں کی تاخت سے محفوظ نہیں ہیں۔ بعض اوقات یہ تبصرے اس قدر بلند آواز میں ہوتے کہ سننے والے لوگ مجھے انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ۔ ایک بار سفر کے دوران مسلمانوں کی شادیوں اور طلاق کو موضوع بنایا گیا اور یہ کہا گیا کہ اسلام میں عورت کی گھر میں اتنی ہی حیثیت ہے کہ مرد کھڑے کھڑے طلاق کے چند الفاظ بول کر عورت کو تمام حقوق سے محروم کرسکتا ہے اور مسلمان بیوی کی خاندان اور معاشرے میں یہ اوقات ہے کہ اسے زرخرید باندی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دی جاتی۔

ایک مرتبہ مسلمانوں اکثریتی علاقے کے ایک مدرسے میں ایک دینی پروگرام میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ اس پروگرام میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم مرد و خواتین بھی شریک تھے ۔ پروگرام کے مختلف موضوعات میں سب کی دلچسپی کا باعث ایک موضوع “دجال” بھی تھا ۔ اس موضوع پر ایک مولانا صاحب اور ان کی نو مسلم بیوی نے بہت طویل لیکچرز دیے۔ مولانا صاحب کسی مدرسے کے پڑھے ہوئے تھے جبکہ ان کی بیوی پی ایچ ڈی ڈاکٹر اور ایک یونیورسٹی میں پروفیسر تھی۔ اس موضوع پر کی گئی ان کی گفتگو کو ظن و گمان پر مبنی قصے کہانیاں تو کہا جا سکتاہے لیکن کوئی صاحب عقل اسے علمی گفتگو ماننے کو تیار نہیں ہوسکتا۔ ماضی کے اخبار کے علاوہ اس دور میں دجال کی چالوں کوواضح کرتے اور اس کے جالوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے شرکاء کوخبردار کیا کہ اس دجالی کلچر سے ہمارے گھر کا کوئی فرد بھی محفوظ نہیں ہے، یہ ٹی وی کی صورت میں ہر گھر میں موجود ہے؛ ہماری اکثر جانماز وں پر چھپے ڈیزائن میں جو سینگ نظر آتے ہیں وہ دجال ہی کے ہیں؛ امریکن ڈالر پر جو آنکھ کا نشان بنا ہوا ہے وہ بھی دجال کی آنکھ ہے ؛ امریکہ کے کچھ طیاروں کے” پر” دجال کے کانوں کی طرح ہیں۔۔۔وہ کہتے جا رہے تھے اور میں اس فکر میں غوطہ زن تھا کہ کیا یہی “اسلام” اصل اسلام ہے ؟ کیا اس کی یہی حکمت ہے جسے مولانا صاحب پیش فرما رہے ہیں؟یہاں جو غیر مسلم موجود ہیں وہ اسلام کے بارے میں کیسا تاثر اور کیسا تعارف اپنے ساتھ لے کر جائیں گے؟

ایک دن میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا کہ مجھے ان خیالات نے بری طرح گھیر لیا کہ کنفیوشس اور تاؤازم کے ماننے والے آخر اسلام کیوں قبول کریں؟ میں نے خود کو اپنی بیگم کی جگہ رکھ کر خود ہی سے یہ سوال کیا کہ جس کا مذہبی پس منظر اسلام سے بالکل ہی مختلف ہے ، اس کے لیے اسلام میں کیا کشش ہو سکتی ہے ، وہ اپنے آبائی مذہب کے مقابلے میں اسلام کو کیونکر ترجیح دے ؟ بہت غور و خوض کے باوجود مجھے سوائے اندھی تقلید اور عقیدتِ محض کے کوئی دلیل اپنی سابقہ علمی روایت میں نہیں مل سکی جو میرے اطمیان کا باعث بن سکتی۔ میں انہی سوالوں کے تشفی بخش جواب کے لیے کھوج پر لگ گیا۔ اس سے پہلے کہ مجھے میرے سوالوں کے جواب ملتے ، میری بیگم نے بھی مجھ سے سوال کرنے شروع کر دیے۔ ان سوالوں کی بنیادی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان مدارس میں چائنا کے مختلف علاقوں سے آنے والے مسلمان ، اپنی تہذیبی روایات اورقصے کہانیوں کو بھی اسلام کے نام پر اپنے ساتھ لے کر آتے ، جنہیں وہ نہ صرف درست خیال کرتے بلکہ ان کی بنیاد پر دوسرے علاقوں کے مسلمانوں پر تنقید بھی کیا کرتے۔

اس کے بعد مزید ایک واقعے نے نہ صرف میرے ان سوالوں کو مزید پختہ کر دیا بلکہ ان کے جواب تلاش کرنے کے لیے آمادہ بھی کردیا ۔ آپ جانتے ہیں کہ چائنیز نیو ائیر پر ملک بھر میں دس پندرہ دن کی چھٹیاں ہوتی ہیں اور یہ چھٹیاں گزارنے سیاحت کے شوقین حضرات چائنا کے مختلف علاقوں کا رخ کرتے ہیں ۔ انہی دنوں کچھ گروپس اس علاقے میں بھی سیاحت کی غرض سے آئے ۔ مسجد انتظامیہ نے مسجد کے صحن میں ان سیاحوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا تاکہ انہیں اسلام سے متعارف کروایا جا سکے ۔ ان کی ضیافت کے لیے چائے ، بسکٹ ، کھجوریں اور اسلام کے تعارف کے لیے چند کتابیں اور تسبیح و مسواک مہیا کی گئی ۔ ان سیاحوں کی مہمان نوازی کے بعد کچھ دیر انہیں اسلام کا تعارف اور دین کی دعوت پیش کی گئی ۔

اسلام کا یہ تعارف اور یہ دعوت کیا تھی ؟ وہی قصے کہانیاں، وہی ٹوپی اور مسواک کی برکات ، چمچ کی جگہ ہاتھ سے کھانے کی فضیلت ، چوغہ پہننا سنت، سر پر عمامہ پہننا سنت، کدو اور کھجور کھانا سنت۔۔ یہ علمائے کرام بیٹھے تو تھے کہ غیر مسلموں کو اسلام کا مکمل تعارف پیش کریں گے ۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے پیش کردہ اسلام کا تعارف ، اسلام کی بنیادی فکر ، اس کے فلسفہ حکمت اور قانون و کتاب کی قرآنی تعبیرات سے بالکل عاری ، محض چند عقائد و عبادات پر مشتمل تھا اور کچھ حکایات اور قصے تھے یا جنت و جہنم کے فیصلے ۔ اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ جسے سن کر لوگ اسلام کو دین فطرت سمجھ کر اس کی طرف مائل ہوتے یا حقیقی خدا سے تعارف حاصل کرتے ۔ آپ خود فیصلہ کیجئے کہ ان قصے کہانیوں سے ان لوگوں کا اطمینان کیسے ممکن ہے جو اپنے مذہب کی صدیوں کی روایت کو اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں ۔ ان سیاحوں نے اسلام اور اس پر مسلمانوں کی اندھی تقلید پر کئی سوالات بھی اٹھائے ، لیکن مدارس کے ان علما  کی پیش کی گئی بے دلیل وضاحتوں نے ہم سامعین کے اطمینان کا سامان کرنے کے بجائے ہمیں مزید تشکیک کے گڑھے میں دھکیل دیا۔

اس واقعے کے بعد تو سوالوں کا ایک ہجوم تھا جس نے مجھے تشویش و اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ اسلام کے بارے میں دل میں موجود موروثی عصبیت بھی میرے اس اضطراب کو کم نہ کر سکی ۔ کیونکہ میرے اطمینان کے لیے کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی ۔ مجھے سب سے بڑھ کر یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ اگر آج میرے اپنے اطمینان کا سامان میرے پاس نہیں ، میری بیوی کے سوالوں کا جواب میرے پاس نہیں ہے تو کل اس غیر مسلم معاشرے میں پلنے بڑھنے والی میری بیٹیوں کے سوالوں کا جواب کون دے گا۔۔۔؟ یہی وہ خطِ انتہا ہے جہاں سے اسلام کے بارے میں میری علمی تحقیق کی ابتدا ہوتی ہے۔

یہیں سےمجھے میرے سوالوں کا جواب مل گیا ۔ مجھے یہ جواب کہاں سے ملا اور کب ملا؟ یہ ایک داستان ہے ، ایک اسطورہ ہے، کبھی موقع ملا تو تفصیل عرض کروں گا۔ میری یہ تحریر پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ خود کو ایک غیر مسلم کی جگہ پر رکھ کر اپنے آپ سے ایک بار یہ سوال تو کریں کہ محض مذہبی عصبیت اور بے جا عقیدت کے ، آپ کے پاس اسلام کو قبول کرنے یا اس پر قائم رہنے کے لیے کیا دلیل ہے؟ تھوڑی دیر کے لیے مذہبی اعتبار سے غیر جانب دار ہو کر اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ آپ خدا اور اس کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیش کردہ دین کا تعارف ایک غیر مسلم کو کیا پیش کریں گے؟ جس سے اس کا اطمینان ہو سکے۔ اس وقت ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ناگزیرحد تک ضروری ہو چکا ہے ۔ دنیا سوال اٹھائے، نہ اٹھائے، آپ کی اولاد عنقریب یہ سوال ضرور اٹھائے گی۔ خود کے لیے نہیں تواپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کے لیے تو یہ جواب تیار رکھیں ، ابھی سے تیاری کریں، اسی کھوج میں لگ جائیں، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ میں نے جواب تلاش کرنے میں بہت دیر کر دی ۔۔۔یا یوں کہیے کہ مجھے جواب ملنے میں کافی وقت لگ گیا ۔ ۔ مجھے میرے سوالوں کے جواب تو مل گئے لیکن میں نے ان کی وہ قیمت چکائی ہے کہ جس کی تلافی یہ زندگی دے کر بھی ممکن نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply