ایک رات

اتنی امیر ہونے کے باوجود بھی طوائف گیری کرتی ہے ۔۔۔۔جو سنتا منہ میں انگلیاں دبا لیتا،کوئی شوقیہ جسم کیسے بیچ سکتا ہے ۔۔۔؟؟؟
یہاں جتنی بھی طوائفیں تھیں سب کی اپنی مجبوریاں تھیں،ہر ایک کا الگ راز تھا،پر وہ تو کہتی تھی کہ مجھے خوشی ملتی ہے لوگوں کو خوش کر کے۔۔۔ہفتے کے پانچ دن میڈم فرزانہ کے کوٹھے میں رہتی ،جتنے پیسے اور تحفے ملتے اس میں میڈم کا حصہ نکالنے کے بعد باقی سب اپنی ساتھی طوائفوں میں بانٹ دیتی تھی ،اس کا اصلی نام کسی کو نہیں پتا تھا،جب میڈم کے پاس آئی تھی، میڈم نے نام پوچھا، کہنے لگی نام میں کیا رکھا ہے،میڈم نے”بنو” نام رکھنا چاہا تو بولی کوئی فلمی نام ہونا چاہیے۔۔۔جیسے”امراؤ جان ادا”۔پھر یہی نام رکھ دیا گیا۔
کچھ دن بعد وہ امیروں کی جان ہی بن چکی تھی۔۔۔ نزاکت انتہا کی تھی،اس پر وہی مثال صادق آتی تھی کہ
خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے ۔۔۔
جب کوئی مرد اس کا جسم نوچتا اس کے قہقہے پوری طوائف نگری میں گونجتے تھے،جو لڑکیاں گاہک نا ملنے سے آپس میں گپیں لگا رہی ہوتی تھیں وہ ایک دوسرے کی طرف ذومعنی انداز میں دیکھ کر ہنستیں تھیں،لیکن اس کی ہنسی بھی عجیب تھی جیسے کوئی برستی بارش میں سورج کا دیدار نصیب ہوتا ہے،پانچ راتیں کوٹھے کے لیے وقف تھیں اس کی،اگلی دو راتیں کہیں سے ایک بڑی سی گاڑی آتی اور وہ اس میں بیٹھ کر چلی جاتی ۔
ایک دفعہ رات کے آخری پہر کوٹھے پر سوتے سوتے چلانےلگی۔۔۔۔۔بڑی مشکل سے اسے قابو کیا گیا،اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے جا رہے تھے
سکون آور دوا نے اسے جلد ہی خوابوں کی نگری میں پہنچا دیا۔
“نیلی کہاں ہو تم” ۔۔۔۔سردار عاطف نے اسے پکارا،
وہ بدن پر تولیہ لپیٹے غسل خانے سے باہر نکل آئی،غسل خانہ، خواب گاہ کے ساتھ منسلک تھا،دونوں کی شادی کو چار سال ہوچکے تھے،عاطف آج بھی اسے پہلے دن کی طرح چاہتا تھا۔نیلوفر کی ابھی تک کوئی اولاد نہیں پیدا ہوئی تھی،سب نے عاطف پر دباؤ ڈالا کہ نیلوفر کو طلاق دے دو ،لیکن وہ نہیں مانا تو کہا گیا کہ اسے بھی رکھ لو اور دوسری شادی کر لو۔لیکن عاطف نے کسی کی نہیں سنی ،وہ محبت ہی انتہا کی کرتا تھا،چار سال بعد بھی ویسی ہی محبت،نیلوفر بھی جان وارتی تھی اس پر، آج جب بلایا تو لہجے میں عجب درد تھا ۔۔۔۔نیلی کتنا پیار کرتی ہو مجھ سے۔۔۔؟
سرتاج ۔۔۔۔۔وہ تنہائی میں عاطف کو سرتاج بلاتی تھی،
اتنا کہ سر کاٹ کے قدموں میں رکھ دوں۔۔۔
اگر میں تم سے کچھ مانگوں تو انکار تو نہیں کروگی؟بے اختیار اس نے نفی میں سر ہلا دیا،
سوچ لو۔۔۔
سرتاج۔۔۔اس نے شکوہ کناں لہجے میں پکارا،مجھے کسی کی ایک رات چاہیے ۔۔۔
کیا۔۔۔؟؟؟؟
نیلوفر کچھ نا سمجھ پائی۔۔۔
میں ایک رات”فہمی” کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔۔۔
کیا اس کے حواس پر بجلی گری۔۔فہمی نیلوفر کی چھوٹی بہن تھی۔۔
یہ کیا کہہ رہے ہو تم ۔۔؟؟؟؟؟
وہ حیرت اور صدمے سے گنگ اس کی طرف دیکھتی رہی،
ہاں ۔۔وہ کہتا رہا،میں نے صرف تم سے محبت کی ہے نیلی،
پر میں دن رات اندر جلتا رہتا ہوں ،تڑپتا ہوں راتوں کو نیند نہیں آتی ،ہاں نیلی بس ایک رات اس کے ساتھ چاہیے،
نیلی ایک رات بس، نیلوفر اپنی جگہ سے اٹھی اور زناٹے دار تھپڑ عاطف کے گال پر انگلیوں کے نشان چھوڑ گیا۔۔۔۔عاطف بلند آواز میں چیختے ہوئے ایک ہی بات کہے گیا۔۔۔مارو مجھے، مارو میں اسی قابل ہوں ۔۔۔نیلوفر جتنا بھی غصہ کرتی مگر وہ جو پیار کرتی تھی وہ زیادہ بھاری تھا ،
کچھ دن گزر گئے ۔۔۔۔عاطف ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔
نیلوفر سے اس کی حالت دیکھی نہ جاتی،ایک دن عاطف لوٹا تو اس نے کچھ فائلیں اس کی گود میں ڈالیں،اور چپ کر کے پلٹ گیا،اس نے فائل کور کھولا تو ایک خط گر پڑا۔۔۔۔ پتا چلا کہ عاطف نے فیکٹری گھر سب کچھ اس کے نام کر دیا ہے،اور مانگا کیا ہے؟
بس ایک رات !!!
وقت گزرتا رہا۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر نے بتایا کہ نیلوفر امید سے ہے ،
مزید پانچ چھ مہینے گزر گئے۔۔۔۔۔عاطف کی حالت ویسے ہی خراب تھی لیکن نیلوفر کا خیال وہ حد سے بڑھ کر رکھتا،پھر ایک دن عاطف نے کہا کہ نیلی اب فہمی کو گھر بلا لو۔۔۔۔وہ تمہارا خیال رکھے گی ،نیلوفر کچھ نہ سمجھتے ہوئے بہت کچھ سمجھ گئی،لیکن کبھی کبھی کچھ رشتے بچانے کے لیے کچھ رشتے قربان کرنے پڑتے ہیں ۔۔۔۔
نیلوفر نے فہمی کو گھر بلایا تھا۔۔۔کہا تھا کہ اب سات مہینے کا بچہ ہوگیا ہے ،عاطف تو سارا دن باہر ہوتا ہے،کوئی تو ہو جو میرا خیال رکھے ،فہمی سارا دن چہکتی رہتی تھی ،کہتی نام فہد رکھنا ہے ،پھر اس کے کپڑے سیتی،کئی جوڑے سی دئیے ۔
ایک رات نیلوفر نے فہمی کو عاطف کو کھانا دینے بھیجا،عاطف بیڈروم میں بیٹھا تھا۔۔۔
فہمی واپس پلٹنے لگی تو دروازے میں نیلوفر کھڑی تھی
عاطف!
عاطف نے چونک کر اسے دیکھا
بس ایک رات !
نیلوفر نے سرد اور سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔فہمی کچھ نہ سمجھتے ہوئی بولی،باجی!
یہ ایک رات کونسی ہے؟
اسی وقت دروازہ بند ہوگیا،باہر سے کنڈی لگنے کی آواز آئی،فہمی کچھ نہ سمجھتے ہوئے بہت کچھ سمجھ گئی۔۔۔۔۔۔
دوڑ کر دروازے کے پاس پہنچی تھی ۔۔۔
باجی دروازہ کھولو ۔۔۔
پلیز باجی دروازہ کھولو۔۔
باجی۔۔۔
باجی۔۔۔۔
اس کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔۔
اور باہر نیلوفر اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کے مر رہی تھی ،غم کی شدت نے اس کے رونے کی آواز کو ہی گلے میں دبا دیا تھا۔۔
دو تین گھنٹوں بعد عاطف کی آواز آئی ۔۔دروزہ کھول دو۔۔۔
نیلوفر کو لگا جیسے ہاتھ کام نہ کر رہے ہوں ،عاطف نے باہر آتے ہی نیلوفر کو چومنا شروع کر دیا۔۔۔نیلوفر جلدی سے اندر بھاگی
فہمی۔۔۔۔۔ بستر پر پڑی تھی ،
نیلی اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی، فہمی کو جیسے ہی ہوش آیا اس نے باہر کی جانب دوڑ لگا دی اور بے تحاشا روتے ہوئے گیٹ سے نکل کر اندھیرے میں گم ہو گئی۔۔۔۔۔نیلی نے عاطف کو آوازیں دیں جو کہ ابھی نہا کر باہر آرہا تھا،۔۔۔۔۔فہمی کے بارے میں سن کر حواس کھو بیٹھا ۔۔۔
نیلوفر نے گھر کال کی فہمی کا پوچھا۔۔فہمی تو تمہارے ساتھ تھی ۔
اس نے بتایا کہ میری طبیعت خراب ہوگئی تھی، فہمی میڈیکل سٹور سے دوا لینے چلی گئی تھی ،عاطف کہیں باہر تھے،کافی دیر ہوگئی ابھی تک نہیں لوٹی ،پوری رات آنکھوں میں کٹ گئی ،انہوں نے صبح دوبارہ فون کیا تھا۔۔۔ابھی تک وہ گھر نہیں پہنچی تھی۔
صبح تھانے رپورٹ کرانے گئے تھے۔۔۔وہاں پتا چلا کہ کسی لڑکی کو رات ایک تیز رفتار گاڑی نے کچل دیا تھا اور ڈرائیور گاڑی بھگا کر چلا گیا تھا،وہ جلدی سے مردہ خانے پہنچے۔۔۔۔۔۔ لاش کا چہرہ دیکھتے ہی نیلوفر بے ہوش ہوگئی۔۔۔۔ہاں وہ فہمی ہی تو تھی
شام تک پتا چلا کہ یہ خودکشی اور زیادتی کا کیس ہے۔۔۔
نیلوفر گھر آچکی تھی اور ابھی تک چپ چاپ تھی ،وہ اٹھی اور کچن میں جا پہنچی،عاطف اسے پکار رہا تھا۔۔
نیلی۔۔۔۔وہ کچن کی طرف آیا تو دیکھا کہ نیلوفر نے چھری دستانے سے پکڑی ہوئی ہے ،وہ چلایا نیلی رک جاؤ۔۔۔لیکن اسی وقت نیلوفر اپنے پیٹ میں چھری گھونپ چکی تھی۔۔ہسپتال لے جایا گیا،
ڈاکٹر نے بتایا کہ بچے کو بچانا ناممکن ہے ،ماں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔۔بچے کی موت کی خبر نے عاطف کا دماغ الٹا دیا،چار سال سے زائد بچے کا انتظار اور بچہ مر گیا۔۔۔طبعیت سنبھلنے کے بعد نیلوفر اپنے میکے میں تھی۔۔بالکل خاموش ،
عاطف ذہنی مریض بن چکا تھا ،اور علاج ی غرض سے پاگل خانے میں داخل تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کھل چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔امراؤ جان ادا نے پیٹ پر ہاتھ پھیرا
وہاں چھری اور ٹانکوں کا نشان موجود تھا۔۔۔۔۔شام ہونے والی تھیوہ اٹھ کر تیار ہوئی، آج بھی اس کے گاہک پورے تھے ۔۔۔آخر اس نے ایک رات کی قیمت بھی تو چکانی تھی۔

Facebook Comments

عامر اشفاق
میں نعرہ مستانہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply