حدودِ طائف۔۔فیصل عظیم

 دعائیں دینا!

کہ اہلِ طائف حدودِ طائف

پھلانگ کر اب

زماں، مکاں کی سبھی فصیلیں عبور کر کے

جنوب و مشرق، شمال و مغرب

پہ چھا گئے ہیں

جو ہاتھ میں تھے کبھی، وہ پتھر زبان پر ہیں،

نظر نظر ہیں بھری ہوئی ہیں انہی سے لفظوں کی منجنیقیں

جو ان کی نوکِ قلم سے پیہم برس رہے ہیں

مگر ابھی سر بہت ہیں باقی

ابھی تو جوتوں سے خون بھر کر

گرا نہیں ہے

حضورؐ کی رحمتوں کا دریا بھی موج میں ہے

وہ سلسلہ بھی رکا نہیں ہے

ابھی تو محشر بپا نہیں ہے

سروں پہ، سوچوں پہ، راستوں پر

ابھی پڑیں گے بہت سے پتھر

اور ان پہ چلتے ہوئے یہ پیروں کے آبلے

پھوٹتے رہیں گے وہ سنگ پیروں تلے ہی آنے دو،

ان کو ہاتھوں میں مت اُٹھانا

فگار ہاتھوں میں خون کی ہر لکیر کو اک

کرن بنا کر

فلک کی جانب اُچھال دینا

وہ، جبرئیلِ پیامِ الفت، مرے پیمبرؐ،

جو دے گئے ہیں، سلام و رحمت کے پھول،

اشکوں سے جگمگانا دلوں کے غارِ حرا سے اُٹھ کر

محبتوں کی صدائیں دینا

مرے پیمبرؐ کو یاد کر کے

Advertisements
julia rana solicitors london

اِن اہلِ طائف کو جس قدر ہو دعائیں دینا !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply