• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پرانا چورن نئی پیکنگ میں ڈوپامین کی اضافی خصوصیات کے ساتھ ؛ساحل عدیم صاحب کے نام/محمد وقاص رشید

پرانا چورن نئی پیکنگ میں ڈوپامین کی اضافی خصوصیات کے ساتھ ؛ساحل عدیم صاحب کے نام/محمد وقاص رشید

جنابِ ساحل عدیم صاحب !

آپ کا ایک پرستار ہونے کے ناطے میں نے آپکی تقریباً تمام ویڈیوز دیکھ رکھی ہیں۔ ان ویڈیوز میں سب سے زیادہ جن دو چیزوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان میں ایک یعنی “ڈوپامین” پر میں مضمون لکھ چکا دوسری پر حاضرِ خدمت ہے۔

آپکی وہ ویڈیو میرے دل پر نقش ہے جس میں آپ نے اپنے ہاتھوں اور بالوں کو ہلا ہلا کر قرآن کی آیت کے تناظر میں مجھے اب تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے پر غیرتِ ایمانی سے عاری ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ آپکی وہ ویڈیو تو میری آنکھوں سے سیدھا دماغ پر جا کر چسپاں ہوئی جس میں آپ جوشِ خطابت سے مجھے بتا رہے تھے کہ پولینڈ کی فلاں فلاں لباس میں کشتی پر اس ملک کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے پہنچنے والی لڑکیاں مجھ سے ایمان کے لحاظ سے بہتر ہیں۔ اور وہ ویڈیو تو یقین کیجیے روح میں اتر گئی تھی  جس میں آپ نے حتی کہ جرنیلوں کو بوڑھے ہو کر طبعی موت مرنے کا طعنہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ انکی جگہ ہوتے تو میدانِ جنگ میں شہید ہونا پسند کرتے۔

اور آپکی وہ تمام ویڈیوز جس میں رسول اللہ ص سے لے کر خالد بن ولید اور خالد بن ولید سے لے کر صلاح الدین ایوبی تک کی مثالوں کے ساتھ آپ نوجوانوں کا لہو گرماتے نظر آتے وہ آج کے عالمی منظر نامے میں رہ رہ کر یاد آتی رہیں۔

آپ کی ویڈیوز دیکھ دیکھ کر میرے اندر جذبہِ ایمانی کوٹ کوٹ کر بھر چکا ہے۔ اتنا کہ بس آپ کے نعرہِ تکبیر بلند کر کے علمِ جہاد بلند کرنے کی دیر ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ آپ کے ملینز ویورز میں سے آدھے تو آپکے پیچھے کھڑے ہوئے کہ ہوئے وگرنہ وہ تو کہیں نہیں گئے جو پیسے دے کے آپکے لیکچرز لیتے ہیں۔ اگر وہ نہیں تو کم سے کم یوتھ کلب والوں کے ڈنڈ ڈولے تو تھے ہی آج کے لیے۔

آپ کافی دنوں سے غائب تھے تو جب اسرائیل کے آئرن ڈوم پر فلسطین کی ایک تنظیم حماس کی جانب سے حملہ ہوا تو مجھے لگا کہ ہو نہ ہو اسکے ماسٹر مائنڈ آپ ہی ہیں۔ اور اتنے عرصے کی موٹیویشنل ویڈیوز میں دنیا جہان کی غیرت و ایمان آج علم سے عمل میں ڈھل گیا اور آپ مسلمانوں کی چون ممالک کی فوج سے سبقت لے گئے جنکو آپ تلواروں کے رقص کا طعنہ دیتے تھے۔

پاکستان میں جب اس حملے کو لے کر مختلف دیرینہ کاروبار چمکنے لگے۔ ہمیشہ کی بے معنی دعائیں اور بامعنی چندے کی مہم شروع ہو گئی۔ اسلام کے نام پر سیاسی دکانداری چمکنے لگی تو مجھے ایک ہی مردِ مجاہد کا خیال آیا کہ دیکھو کریڈیٹ کس کا ہے اور لے کون رہا ہے۔ بہرحال میں چشمِ تصور سے آپکو مشرق کی جانب سے ایک گھوڑے پر فاتحِ اسرائیل کا علم تھامے اپنے بہترین تراش کے برینڈڈ سوٹ کے اوپر زرہ پہنے ، لمبے لمبے بالوں کو ہوا میں لہراتے آتا دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آپکے استقبال میں پھول نچھاور کرتے یہ گلہ کروں گا کہ آپ نے مجھے تو ساتھ لیا ہی  نہیں۔

بہرحال میں نے آپکی سلامتی اور کامیابی کی دعائیں کر  رہا تھا۔ میرا دل اس تجسس میں تھا کہ آپ اپنی من چاہی شہادت کا رتبہِ عظیم پائیں گے یا غازی بن کر لوٹیں گے سو اسی خبر گیری کے لیے کل سوشل میڈیا کا پٹہ چڑھایا تو آپ کو دیکھ کر دل پارک پارک ہو گیا۔ میں بھی آپکی طرح ماڈرن ٹچ دے رہا ہوں کیونکہ اب وہ باغ کہاں رہے جی اب تو چپس کے ریپرز ،جوس کے ڈبوں اور سگریٹ کے ٹوٹوں والے پارک ہی ہوتے ہیں۔

ہیں ۔  ۔۔۔یہ کیا ؟ آپ تو بیٹھے انجینئر علی مرزا صاحب کے اس متعلق بیان کا اپنے مخصوص انداز میں پوسٹ مارٹم کر رہے تھے آپ فرما رہے تھے کہ اگر ہم حج پر جا سکتے ہیں تو فلسطین کیوں نہیں اور آپ نے ایک بہت بڑی بات کر دی کہ اگر نبی ص غزوہِ خندق آج کر رہے ہوتے تو مسلمان آج بھی کہہ رہے ہوتے کہ ہم اتنی دور کیسے جا سکتے ہیں۔۔اللہ اکبر۔۔۔

او بھائی۔ یعنی ۔۔۔مطلب ۔۔۔آپ بھی ۔۔۔آپ ابھی بھی یہاں بیٹھ کے اپنے بالوں کو سٹریٹنر لگا کے کے برینڈڈ پینٹ کوٹ پہن کے دھرمندر کی طرح گریبان کھول کے اور نیسلے کی چھوٹی پانی کی بوتل ہاتھ میں پکڑ کے پاڈکاسٹیں کر رہے ہیں آپ آج بھی اپنی ایک دہائی کی آئیڈیالوجی کو عملی جامہ پہنانے کے وقت یہاں ویڈیوز بیچ رہے ہیں۔ اسکا مطلب آپ وہی پرانا جہادی چورن نئی پیکنگ میں بیچتے ہیں ڈوپامین کی اضافی خوبیوں کے ساتھ۔

حد ہے خدا کی قسم۔ قرآن کی آیتوں کو اپنے لا یعنی قسم کے فلسفوں میں مفہوم کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے اور ان سے محض کھوکھلی خودنمائی کے مطالب نکالتے لوگ قرآن کی سیدھی آیت کو بھی کبھی پڑھیں جس کا عملی ثبوت ہیں وہ چلتے پھرتے “اے ایمان والو وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں “۔

ساحل صاحب ! آج آپ سے ایک سادہ سا سوال ہے۔ کوئی لگ بھگ دس سال سے آپ نوجوانوں کو جس فلسطین کا نام مہنگے داموں بیچ رہے ہیں۔ وہاں پہنچنے کی تلقین کی رہے ہیں، نہ پہنچنے کو ایمان و غیرت سے عاری ہونا قرار دے رہے ہیں۔ آج آپ وہاں خود کیوں نہیں گئے ؟

یقیناً اسکی تاویل آپ اس آئیڈیالوجی سے کریں گے جس پر آپ تبرہ کرتے ہیں کہ بھئی ریاست اعلان کرے تو ہم جائیں۔ تو بھیا یہی تو ہم کہتے ہیں کہ ریاست اقوامِ عالم کا ایک حصہ ہے۔ یہ صدیوں پرانے قبائلی معاشرے کی کوئی ریاست ہے نہ ہی خلافت۔ اسکا نظم آج کے اسلوب پر ہی چلنا ہے جب اسکو آپ عملی طور پر تسلیم کرتے ہیں تو بھیا یہ علمی طور پر بھی مان جائیں۔ لیکن آپ نہیں مانیں گے کیونکہ اس سے نئی پیکنگ میں اضافی خوبیوں کے ساتھ بکتے چورن کی سیل متاثر ہو گی۔

مذہب فروشی اور دین کا بیوپار ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ یعنی اسکے خریدار کبھی ختم نہیں ہوتے۔ یہ بیوپار ہر دور کے مواصلاتی و اطلاعاتی ذرائع کو استعمال میں لاتا ہے۔ ساحل عدیم صاحب اور یوتھ کلب کے سکس پیک پوڈ کاسٹ مجاہدین نے اپنی ظاہری ہئیت میں جدت کے ذریعے اس خریداری کی نفسیات کو سوشل میڈیا پر بہت کامیابی سے گھیرہ ہے۔ یہ ہاتھی کے وہی دانت ہیں جو کھانے کے اور ہیں دکھانے کے اور۔ “جہاد ” کی ہنڈیا چڑھا کر نوجوان لہو کو ایندھن کے طور پر استعمال کر کے ہڈیاں اپنے دسترخوان پر چننے کا عمل ہمارا دیکھا بھالا ہے۔ آج کا چندہ چینل بھی ڈیجیٹل ہے بھیا۔

ساحل صاحب اپنے نام کے مصداق ساحل پہ کھڑے ہو کے بھنور میں ڈوبنے والوں کو اپنی تیراکی کے قصے سنا کر خراج وصول کرتے ہیں۔

بندہ پوچھے جو لوگ وہاں پہنچتے ہیں نہ دوسروں کو کہتے ہیں وہ آپ کی نظر میں ایمان اور غیرت سے عاری ہیں اور آپ جنہیں یہ بتانے کے پیسے لیتے ہیں اور ان پر تبرہ کر کے انکے پیسوں سے بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کر نیا برانڈڈ سوٹ زیبِ تن کر کے اگلے سیشن میں وہی راگ الاپنے پہنچ جاتے ہیں آپ کیا ہوئے ؟

ساحل عدیم صاحب ایک انتہائی موزوں کیس ہیں کشمیر سے لے کر فلسطین تک کے بے چارے مظلوم و بے بس لوگوں کے سمجھنے کے لیے کہ ہر کاروبار میں بیچنے کے لیے کچھ نہ کچھ درکار ہوتا ہے، کوئی نہ کوئی پراڈکٹ۔ جہادی کاروبار میں مظلوم فلسطینی حماس سے لے کر ساحل عدیم صاحب تک وہی پراڈکٹ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کاش کہ دنیا کا ہر مظلوم ایک آنکھ اپنی لاشوں پر رکھے اور دوسری اپنی طرف کے کفن فروشوں پر ، مذمت قاتل کی بھی کرے اور اس بیوپاری کی بھی کیونکہ دونوں اسے مرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور دوبارہ جی اٹھنا ان دونوں کی عملی مذمت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply