کیا زمین سے اکھاڑنے کا مطلب زمین بدر کرنا ہے؟-سلیم زمان خان

فَاَرَادَ اَنْ يَّسْتَفِزَّهُمْ مِّنَ الْاَرْضِ فَاَغْرَقْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ جَمِيْعًا
آخرکار فرعون نے ارادہ کیا کہ موسیٰؑ اور قوم کو زمین سے اکھاڑ پھینکے، مگر ہم نے اس کو اوراس کے ساتھیوں کو اکٹھا غرق کر دیا( الاسراء 103)

 

 

 

جدید علوم کے مطابق تشریح : مندرجہ بالا آیت ایک عجیب اور دماغ کو جھنجھوڑنے والی آیت ہے۔۔ قدیم تشریحات میں قوم موسی علیہ السلام کو زمین سے نکالنے سے مراد مصر سے نکالنا تھا ۔۔ جیسے کہا جائے کہ اسے اس کی زمین سے بے دخل کر دیا گیا۔۔ لیکن اگر ہم اس بات کو جانتے ہیں کہ موسی علیہ السلام نے تو خود فرعون کو کہا تھا کہ میری قوم کو میرے ساتھ جانے دے۔۔

ترجمہ: یہ کہ ہمارے ساتھ بن ی اس رائیل کو بھیج دے ( الشعراء17)
اعتراض تو یہی تھا کہ قوم موسی علیہ السلام کو جانے نہیں دینا اور غلامی کروانی ہے۔ اسی طرح جب فرعون کی بات نہ مان کر حضرت موسی علیہ السلام قوم کو لے کر نکلے تو اس نے انہیں پکڑنے اور مارنے کو پیچھا کیا تاکہ انہیں مصر سے نکلنے نہ دے ۔۔ پھر وہ کون سی زمین تھی جس سے نکالنے ( اکھاڑ پھینکنے)کی دھمکی فرعون دے رہا تھا۔۔ اگر موسی علیہ السلام نکل رہے تھے تو جانے دیتا جبکہ اگر صرف اس آیت کاممقصد انہیں اپنے علاقے یا سلطنت سے نکالنا تھا۔

لیکن ایسا نہیں۔۔ فرعون بانی ہے اہرام مصر کا جو بجلی کی فراہمی اور آسمانی بجلی کو کنٹرول کر کے سیاروں سے گفتگو اور سگنل لیتے تھے۔۔ وہاں ایک پتھر کا وزن 80 ٹن ہے اسے 300 میل دور سے لا کر ڈیڑھ سومیٹر اوپر رکھنا کوئی عام بات نہیں یہ انجینئرنگ کا ایک معجزہ ہے یعنی آج کی جدید دنیا بھی نہیں کر سکتی اس وقت کیسے ہو رہا تھا ۔ اس کا جواب صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جو کہ حضرت موسی کے کم و بیش 1 ہزار سال بعد ہے میں ملتا ہے جب سلیمان علیہ السلام کے کہنے پر ملکہ بلقیس کا تین منزلہ تخت پلک جھپکتے پہنچا دیا جاتا ہے۔۔ اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں کاغذ کی ایک قسم پیپراس بنا لی گئی تھی۔۔ تمام اہرام مصر میں اور نزدیکی محلات میں مشل یا آگ کے زریعے روشنی کے کوئی نشان نہیں ملتے جس سے ظاہر ہے کہ روشنی کے کچھ اور انتظامات تھے، آج جدید تحقیق یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ یہ اہرام دراصل جنریٹرز یا بیٹریاں تھیں جن سے بجلی یا توانائی پیدا ہوتی تھی۔۔۔ اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام سے مقابلے کے لئے جو جادوگر فرعون نے بلائے وہ اس حد تک کامل تھے کہ رسیوں کو سانپوں کی طرح دوڑاتے تھے۔ اور جب  آپ کی قوم سمندر کے بیچ سے گزر کر دوسری جانب پہنچی تو سامری نے سونے سے ایسا بچھڑا بنایا جس سے باقاعدہ بچھڑے کی آواز نکلا کرتی تھی۔۔ اور سب سے بڑھ کر فرعون سمندر کو کھلا دیکھ کر نہیں ڈرا تھا اور موسی علیہ السلام کا پیچھا کرتے ہوئے اس سمندر میں گھس گیا جو لاکھوں سالوں سے بہتا رہنے کے بعد جب دو ٹکڑے ہوا تو نیچے اس کی زمین میں کیچڑ نہیں تھا۔۔ وہ خشک مٹی اڑا رہی تھی۔۔ یہ اس لئے ہوا کہ فرعون پانی پر جادو کے زور سے یا ستاروں کی طاقت ( کاردشیف اسکیل سوالازائشن ٹائپ 1) پر تھا۔۔ لہذا وہ جو کہہ رہا تھا کہ” موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو زمین سے اکھاڑ پھینکے ” وہ انہیں کسی دوسرے سیارے یا کائنات کی ٹیلی پورٹیشن کا ذکر کر رہا ہے۔۔ کیونکہ اسی آیت کے اگلے حصے میں اللہ فرماتے ہیں کہ زمین سے اکھاڑنے سے کمتر معاملے یعنی سمندر میں ڈبو دیا۔۔
اور اگلی آیات میں رب ارشاد فرماتے ہیں کہ
ترجمہ: اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرا ئیل سے کہا کہ تم اس زمین میں آباد رہو پھر جب آخرت کا وعدہ آئے گا ہم تمہیں سمیٹ کر لے آئیں گے۔ ( الاسراء 104)
یعنی آخرت تک تو قوم موسی علیہ السلام صرف مصر میں نہیں رہیں گے پوری زمین پر پھیلیں گئے جنہیں صرف آخرت میں سمیٹا جائے گا۔۔
جب اسی آیت “جس میں فرعون حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو زمین سے اکھاڑنے کا فیصلہ سنانے لگا ہے ۔۔ ” اس کے اگلے حصہ میں حضرت موسی علیہ السلام اسے تنبیہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں۔۔

ترجمہ : کہا یہ تو تجھے معلوم ہے کہ یہ آسمانوں اور زمین کے مالک ہی نے لوگوں کو سوجھانے کے لیے نازل کی ہیں، اور بے شک میں تجھے اے فرعون ہلاک کیا ہوا خیال کرتا ہوں۔( الاسراء102)

یعنی یہ جو فرعون سوچ رہا ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ زمینوں اور آسمانوں کی بادشاہی اللہ کی ہے۔۔ اگر فرعون ایسا کرنے کا سوچے گا تو ہلاک ہو جائے گا۔۔

پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فرعون اس وقت علمی اور ترقی کی ان منازل میں تھا جہاں وہ زمین سے انسان کو باہر نکال سکتا تھا۔۔ یا وہ قوم اتنی ترقی یافتہ تھی کہ زمینوں کے علاوہ بھی سیارہ یا ستارے ان کے دسترس میں تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(یہ مضمون آج کی جدید علوم کی روشنی میں جدید تعلیمات کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے۔۔ جس کا مفہوم وقت اور تعلیمات کے مطابق مختلف زمانوں میں مختلف ہو گا اور تشریح حالات کے مطابق ہوتی رہے گی، مزید سمجھنے کے لئے میرے دو مضامیں کاردشف اسکیل ،اور وقت ،موسی و خضر کا سفر پڑھیں )

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply