موت اور کمرشل ازم/ابو جون رضا

ہمارے یہاں موت کو گلیمرائز کیا جاتا ہے۔ میں ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس کافی عرصہ بعد گیا۔ بہت اچھے اور شفیق ڈاکٹر ہیں۔ مجھ سے تھوڑی بہت ادھر اُدھر کی باتیں بھی کرلیتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ کمرے میں اسلامی نصائح، قبر دن میں تین بارپکارتی ہے جیسے اسٹیکرز کی تعداد کچھ زیادہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کچھ کمزور لگے ۔ انہوں نے داڑھی بھی رکھ لی تھی۔ میں نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے  اینگزایٹی ہوگئی ہے۔ پھر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تبلیغی جماعت کے ساتھ آج کل ان کا اٹھنا بیٹھنا ہوگیا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ اب زیادہ تر یہ آسمان سے اوپر یا زمین سے نیچے کے قصے سنتے سناتے ہوں گے۔

اس کے بعد انہوں نے دنیا کو دو چار برے القاب سے یاد کیا اور مجھے کہا کہ انسان نماز وقت پر ادا کرے اور اللہ کے سامنے جوابدہی کو یاد رکھے۔

میں نے کہا ڈاکٹر صاحب

پھر ہو رہی ہے پُرسش اعمال روزِ حشر
یا رب سزائے موت گئی کس حساب میں

میں جس زمانے میں مولانا وحید الدین خان کو پڑھتا تھا اس زمانے میں موت اور قبر کی یاد دہانی پر مشتمل پوسٹ زیادہ کرتا تھا۔

وقت کے ساتھ احساس ہوا کہ اس طرح کی باتیں انسان کو سست الوجود اور غبی بنا دیتی ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ کامیابی بس نماز روزہ لمبی داڑھی اور ذکر اور اذکار میں چھپی ہے۔

ہمارے معاشرے میں موت بھی کمرشل بنا دی گئی ہے۔ قبر اور موت کو ایک ایسے دھندے میں تبدیل کیا گیا ہے جس سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ تیجہ، دسواں ، بیسواں ، چالیسواں، برسی، مقدس ہستیوں کی قبور کی زیارت کے لیے مہنگے مہنگے سفری پیکج ، ایک پوری انڈسٹری ہے جس کا کاروبار سال بھر کبھی مندا نہیں ہوتا۔ بلکہ انفلیشن اور پریشانی میں یہ اور چمکتا دمکتا ہے۔

مولوی بتاتے ہیں کہ آپ فلاں کی زیارت پڑھیں یا فلاں کے مصائب کی مجلس برپا کریں یا فلاں الفاظ ہزار دو ہزار دفعہ دہرائیں تو ماضی کی فلاں مقدس ہستی آپ کی قبر کی پہلی رات ، آپ کے سرہانے موجود ہوگی اور آپ کو منکر نکیر کے چنگل سے چھڑا کر جنت کی طرف روانہ کردے گی۔

کمال تعجب ہے کہ یہ ہستیاں جب انسان زندہ تھا، اس وقت اس کو قرض کے بوجھ سے چھٹکارا نہیں دلا سکیں مگر قبرکی پہلی رات اس کو آگ کے گرز سے بچا لیں گی؟

تھری ایڈیٹس مووی کا ڈائیلاگ یاد آتا ہے۔

“جب مستقبل سے اتنا ڈرے گا تو کیا خاک جیے گا”

لوگوں کو بتایا نہیں گیا کہ

“قریب ہے کہ فقر انسان کو کفر تک پہنچا دے”

“جس کی دنیا خراب ہے ، بعید نہیں کہ اس کی آخرت بھی خراب ہو”

یاد رکھیے، جب تک آپ زندہ ہیں، موت عدم میں ہے، جب وہ آجائے گی ۔ آپ عدم میں چلے جائیں گے۔

آپ کا شعور ہی زندہ رہ سکے گا۔

اس شعور کو بلند کیجیے، یہی باقی رہنے والا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہتر اور مطمئن ذہن کے ساتھ آج کی اس دنیا میں جئیں اور اپنی آنے والی نسل کے لیے خود اپنی مثال چھوڑ جائیے کہ وہ آپ سے مقابلہ کرنے میں فخر محسوس کریں۔ ان کو باہر دیکھنے کی ضرورت نہ ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply