عجب حکومت کی غضب کہانی۔۔چوہدری عامر عباس

ملک ایک غیریقینی کی کیفیت سے دوچار ہے،نئی حکومت بنے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ہونے کو آیا ہے مگر ابھی تک یہ اپنا روڈ میپ بھی نہیں دے سکے۔ وزیراعظم بشمول اپنی کابینہ و اتحادی سب پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔ مسلم لیگ ن سے جب کہا جاتا ہے کہ ملکی اور حکومتی حالات دگر گوں ہونے کی آخر وجہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکومت ہماری نہیں ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کیلئے قومی سلامتی کا اجلاس بلایا جائے۔ یہ پٹرول کی قیمتیں نہ ہوئیں گویا سومنات کا مندر فتح کرنا ہی ہو گیا۔

رانا ثنا اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے میں جس کا جتنا حصہ ہے مشکل فیصلوں کی وہ اتنی ہی ذمہ داری بھی قبول کریں۔ بین السطور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد میں شامل ہونے والی تمام جماعتیں اپنے اپنے حصے کی کالک سمیٹیں ہم اکیلے کیوں اپنا منہ کالا کریں۔

پیپلزپارٹی سے جب یہی سوال کیا جاتا ہے کہ حکومت آپکی ہے تو وہ بھی وہی جواب دیتے ہیں جو مسلم لیگ ن والے دیتے ہیں۔

کل اپنے انٹرویو میں سابق وزیر اعظم و رہنما ن لیگ شاہد خاقان عباسی نے واشگاف الفاظ میں کہا “اگر آپ کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے تو یہ حکومت چھوڑ دیں”۔ وہ درست کہہ رہے ہیں کیونکہ آگے بجٹ پیش ہونا ہے یہ بجٹ بہت مشکل ہو گا اور مشکل فیصلے لینا ہونگے جس کا وزن اٹھانے کیلئے اب کوئی تیار ہی نہیں ہے۔

اگلے دنوں مریم نواز نے اپنے ایک بیان میں کہا “عمران خان کی نااہلیوں کا ٹوکرا ہم کیوں اٹھائیں”۔

کیسی عجیب و غریب حکومت چل رہی ہے آج تک ایسی حکومت کبھی دیکھی اور نہ سنی۔

مریم بہن آپ کو یہ ٹوکرا اٹھانے کا کہا کس نے تھا؟ آپ سے ایک سال صبر نہیں ہوا۔ عمران خان کیخلاف عدم اعتماد آپ لے کر آئے۔ نکالا آپ نے۔ اس نے تو اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا تھا کہ عوام میں چلتے ہیں اور فریش مینڈٹ لے کر آتے ہیں یہی جمہوری طریقہ ہے۔ لیکن پھر جو ہوا عوام نے بھی دیکھا۔ آخر وہ کون سی آفت آن پڑی تھی کہ آپ نے عدالتی فیصلے کے ذریعے زبردستی یہ ٹوکرا اپنے سر پر رکھ لیا جس کا وزن آپ اٹھا ہی نہیں سکتے حالانکہ اس کا اندازہ آپ کو پہلے سے تھا کیونکہ آپ تو بقول آپ کے بہت “تجربہ کار” بھی ہیں اور آپکے پاس “تجربہ کار” ٹیم بھی ہے۔ اب کچھ عرصہ اس کا وزن تو برداشت کریں۔

مولانا فضل الرحمن بھی اس حکومت کی  ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ پھر آخر یہ حکومت ہے کس جماعت کی؟ یہ کیسی حکومت ہے کہ مارے غیرت کے جس کا کوئی والی وارث بننے کو ہی تیار نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بھئی مان لیا کہ یہ ایک مخلوط حکومت ہے لیکن آخر کوئی تو اس حکومت کی  ذمہ داری لے۔ اگر ذمہ داری نہیں لے سکتے تھے تو یہ طوق گلے میں آخر ڈالا کیوں تھا؟ کم از کم مجھے یہ خوش فہمی نہیں ہے کہ یہ حکومت بجٹ پیش کر پائے گی۔ حالات بتا رہے ہیں کہ مشکل فیصلے لینے کیلئے اگلے دس دن کے اندر شاید ٹیکنوکریٹس پر مشتمل نئی عبوری حکومت کا اعلان کر دیا جائے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply