کٹ پیس اور گیس بحران کے بارے میں۔۔ذیشان نور خلجی

وزیر اعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق نے کہا ہے “عمران خان کی قومی اسمبلی میں پہلی تقریر ہو جاتی تو حالات مختلف ہوتے۔” جیسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انہوں نے ایک کامیاب تقریر کی. جس کی بدولت بھارت کو تاریخ ساز شکست ہوئی اور کشمیر ہمیشہ کے لئے آزاد ہو گیا (ہم سے)۔ بالکل ایسے ہی اگر قومی اسمبلی میں تقریر ہو جاتی تو گمان غالب ہے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔ تیل کے کنویں نکل آتے۔ روٹی، کپڑا، مکان سب کی دسترس میں ہوتے۔ وسائل کی فراوانی ہوتی۔ غریب چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتے۔ خیر جہاں تک غریب ڈھونڈنے کی بات ہے تو امید ہے آٹا بحران کی بدولت وہ اب بھی نہیں ملیں گے۔
پنجاب کے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے “بزدار کام کرنے کے عادی ہیں، پھڑکنے اور پھدکنے کے نہیں۔” ویسے بھی پھڑکنے پھدکنے جیسے اہم کام، ہم سابقہ حکومت کی طرز پہ صوبائی سطح پر انجام نہیں دے رہے۔ بلکہ ہمیں ان کی اہمیت کا احساس ہے جس کے پیش نظر، اہم وفاقی وزراء یہ فرائض انجام دیتے ہیں۔ جن میں فیصل واوڈا، فواد چودھری، شیخ رشید جیسے نابغے شامل ہیں۔ اور خود وزیر اعظم صاحب بھی کبھی کبھار ایسی گراں قدر خدمات انجام دیتے نظر آتے ہیں۔
وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے “عمران خان نے وعدہ کیا ہے کہ پاکستان کو بدلوں گا۔” اور ایک زرعی ملک میں ٹماٹر، چینی اور اب آٹے کے بحران کے بعد آپ کو اندازہ ہوا ہو گا کہ ملک میں واقعی تبدیلی آ رہی ہے۔ اور وزیر اعظم بہت اچھے طریقے سے وعدہ نبھا رہے ہیں۔ لیکن ان کے کارناموں نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کہ وہ پاکستان کو بدل رہے ہیں یا پاکستان سے بدلہ لے رہے ہیں؟
انہوں نے مزید کہا “عوام بناوٹ، دکھاوے اور اداکاری کے عادی ہیں۔” اور عوام کو خوش رکھنے کے لئے یہ سب جتن کرنے پڑتے ہیں۔ میرا روزگار بھی اسی سے وابستہ ہے۔اور ایسی ڈرامے بازیوں کے لئے ہی مجھے وزیر اعظم کی معاون خصوصی کا عہدہ دیا گیا ہے۔
باقی کے کٹ پیس اگلے کالم میں۔ اب کچھ بات ہو جائے گیس کی صورتحال پر۔
کل ساری رات نیند نہ آئی۔ سو آج صبح اٹھتے کافی مشکل بنی۔ نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے پژمردگی سی چھائی ہوئی ہے۔ اور منہ دھونے کو دل نہیں چاہ رہا۔ ایک تو سردی ہے اور اوپر سے گیس کی لوڈ شیڈنگ۔ سو عام دنوں کی طرح آج بھی منہ دھوئے بغیر ہی کام چلانا چاہا۔ لوگ کہتے ہیں صبح سویرے منہ نہ دھویا جائے تو نحس ہوتا ہے۔ اور دن اچھا نہیں گزرتا۔ قارئین !آپس کی بات ہے میں نے یہ سب آزما کے دیکھا ہوا ہے۔ منہ دھو کے بھی میرے تو بارہ ہی بجے رہتے ہیں۔ ایویں یہ سب توہم پرستانہ باتیں ہیں۔
ناشتے کی ٹیبل پہ ایک خبر نظر سے گزری ہے کہ بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شہوانی نے کہا ہے اس وقت بلوچستان میں صرف گیس کا مسئلہ ہے۔تو جناب شہوانی صاحب ! آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے۔ یہ مسئلہ صرف بلوچستان نہیں، بلکہ پورے ملک کو درپیش ہے۔ کیا ہی پنجاب سندھ اور خیبر پی کے۔ اور اس مسئلے کو لے کے تمام قوم ایک پیج پہ جمع ہے۔ جس کا کریڈٹ عمران خان کو نہ دینا سراسر زیادتی ہے۔ کہ کس خوبصورتی سے مختلف قومیتوں اور عصبیتوں میں بٹے عوام کو متحد کر دیا ہے۔ مجھے تو بے اختیار قائد اعظم رح یاد آگئے ہیں۔
حکومت ملنے سے پہلے عمران خان کو بھی بڑا شوق تھا قائد اعظم بننے کا ۔سنا ہے اب بھی ہے لیکن مختلف انداز میں۔ نیا پاکستان بننے کے سال بھر بعد ہی موصوف کو بھی قبر کی یاد ستانے لگی ہے۔
اللہ خیر کرے۔
گیس بحران کے حوالے سے میں کافی پریشان ہوں۔ اسی پریشانی میں، ملکی حالات کی جانکاری رکھنے والے ایک دیرینہ ہمدم، مزمل شیخ سے بات ہوئی ہے۔ موصوف فرماتے ہیں۔ “ہمیں تھوڑا صبر کرنا چاہیے۔ انشاءاللہ سردیاں ختم ہوتے ہی گیس کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply