خالہ نور کا گھر /اقتدار جاوید

خالہ نور چار بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی۔لیکن عادات اور اطوار ڈپٹی نذیر احمد ناول مراة العروس کی اصغری والی۔یہیں پر بس نہیں مراة العروس کے خیراندیش خان، دوراندیش خان، ماما عظمت، محمد عاقل، محمد کامل، محمد فاضل والی اور تو اور خالہ نور میں نوکرانی محمودہ کی روح بھی جیسے حلول کر گئی تھی۔گھر کے افراد ہی نہیں دور اور نزدیک کے رشتہ دار بھی خالہ نور پر فدا ہو ہو جاتے تھے۔تین بڑی بہنیں بھی اپنی مثال آپ تھیں مگر خالہ نور کی ہر ادا ہی ایسی تھی کہ ہر ایک کی آنکھ کا تارہ بنی ہوئی تھی۔انہیں رشتہ داروں پر ہی موقوف نہیں گھر کی نوکرانیاں بھی اس پر دل و جان سے فدا تھیں۔کسی نوکرانی کی بیٹی کی شادی ہے تو کام سے فراغت کے بعد نوکرانی خالہ نور کے پاس آتی آہستہ سے کام کی نوعیت بتاتی اور مطمئن ہو جاتی۔گویا جو پریشانی اس کے سر تھی اس نے اتار کر خالہ نور کے حوالے کر دی۔خالہ نور اپنی چھوٹی سی ڈائری میں شادی کی تاریخ لکھتیں اور شادی کے موقع پر اپنی توفیق سے بڑھ کر مدد کرتیں۔معلوم ہوتا کہ آج سودا سلف لانے والا بچہ غیر حاضر ہے فورا کسی کو بھجواتی اور خیریت معلوم کرواتیں اگر بیمار ہوتا تو دوا دارو کا انتظام کرتیں۔ڈاکٹر کو تاکید کرتیں جب تک بچہ ٹھیک ہو کر ڈیوٹی پر نہ آتا انہیں جیسے چین نہ پڑتا۔

مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا قدرت کو جیسے خالہ نور کا رویہ پسند نہیں آیا تھا یا کیا وجہ بنی خالہ کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔خالہ کی خوبیوں کی تو دھوم تھی ہی بڑی خالاؤں کے رشتے آتے تو مہمان خواتین کی خدمت اور ان سے ملنا ملانا اسی چھوٹی خالہ کی ذمہ داری تھی۔ مہمان خواتین بڑی خالہ کو پسند کرتیں تو بھی محبت اور حسرت بھری ایک نظر خالہ پر ضرور پڑتی یہی ایک بار ہوا اور مہمان خاتون نے پیار محبت سے چھوٹے بیٹے کے لیے اس کا بھی ہاتھ مانگ لیا۔گھر والوں نے تھوڑی لیت و لعل کے بعد ہاں کر دی اور دونوں بہنوں کی شادی ایک دن ہی طے پا گئی۔اب بھی گھر میں ذمہ داری اسی خالہ کی تھی کبھی بازار جا کبھی پارلر سے بحث کر کے قیمت کم کرواتیں۔شادی ہوئی اور دونوں بہنیں ایک ہی گھر کی دلہن بن کر چلی گئیں۔خالہ کا خاوند آدمی اتنا برا تو نہیں تھا مگر اس کا سلوک خالہ سے اچھا نہیں تھا۔خالہ ناراض ہو کر اپنے گھر واپس آئیں تو اسی گھر کی ہو گئیں۔خالہ کو اللہ نے بیٹا عطا کیا تو خاوند کی وفات ہو گئی۔اب وہی والدین کا گھر تھا اور خالہ نور تھی۔

بڑی بہنیں غیر ملک آباد ہو گئیں۔اس گھر میں ایک خالہ اور ایک اس کا بیٹا ہوتے ماضی خواب خیال ہو کر رہ گیا تھا۔اب نہ وہ گھر نہ نوکر نہ نوکرانی نہ کہیں خیر اندیش خان نہ کہیں محمودہ۔ بڑی بہنوں نے خالہ نور کو ایک چھوٹا سا گھر خرید کر دے دیا جہاں اب وہ اب اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے۔گھر کیا ہے ایک سہارا ہے جو خالہ کو میسر ہے مگر چین سکون نام کو نہیں۔اس وجہ سے نہیں کہ بڑی بہنیں خالہ نور کی مدد میں کوئی کوتاہی برتتی ہیں۔ہر گز نہیں خالہ کو بتا دیا گیا ہے کہ وہ گھر اسی کا ہے وہی اس کی مالک ہے۔اس کے گھر کے معاملات میں کوئی دخل نہیں دیتا کسی دور پار کے رشتہ دار کی اتنی ہمت بھی نہیں کہ وہ خالہ کو کچھ کہہ سکے۔ مگر ہوتا یوں ہے کہ بڑی بہنوں کو خالہ نور کی یاد ستاتی ہے ٹھک سے وینکوور اور ہوسٹن سے ٹکٹ کٹاتی ہیں اور سیدھی خالہ نور کے گھر۔حالات ان کے اچھے ہیں ایک ماہ ان کے بیٹے پاکستان آتے ہیں تو دوسرے ماہ وہ خود۔کبھی ایک بہن کبھی دوسری ادھر ٹکتی ہی نہیں۔خالہ نور اور اس کا بیٹا ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی عملی شکل بنے ہوتے ہیں۔کہنے کو وہ خالہ کا گھر ہے مگر بڑی بہنیں کب آ ٹپکیں کچھ پتہ نہیں۔کبھی لگتا ہے خالہ کوئی پےانگ گیسٹ ہے۔اس گھر میں رہنے کے بدلے بڑی بہنوں اور ان کی اولاد کی آؤ بھگت لازم ہے۔اس گھر کا خرچ خالہ کے بیٹے کا خرچ بڑی خالاؤں کے ذمے ہے۔خالہ نور کا بھی مگر خالہ کے اپنے اخراجات ہیں ہی کتنے۔اس پچھلی عمر میں نہ کھانے کا شوق باقی رہتا ہے نہ پکانے کا۔گاڑی چلتی رہے اتنا ہی کافی ہے۔نہ کپڑوں کا شوق نہ کہیں آنے جانے کا لپکا۔ایک لگی بندھی زندگی کو دھکا لگتا رہے یہی بہت ہے۔گھر میں رہتی خالہ نور ہے مگر گھر کی مالک بڑی بہنیں گھر میں سیریمونیل سربراہ خالہ مگر اختیارات کا منبع بہنیں۔ان کا اپنا گھر ہے خالہ کی ذاتی زندگی اور پرائیویسی کی کسی کو خیال نہیں۔بڑی خالائیں سمجھتی ہیں ہم تو خالہ نور کا ساتھ دینے کے لیے اتنی دور سے آتی ہیں مگر یہ نہیں سمجھتیں ماہ بماہ آنے سے اگلے کی زندگی کتنی مشکل ہو جاتی ہے۔کہنے کو تو وہ غیر ملک سے چھوٹی خالہ سے محبت کی وجہ سے آتے ہیں مگر خالہ کا تو جینا ہی حرام ہو گیا ہے۔نہ اپنی مرضی سے جاگنا نہ اپنی مرضی سے سونا۔کہیں بڑی نہ ناراض ہو جائے کہیں اس سے بڑی نہ ناراض ہو جائے۔نام چھوٹی خالہ کا کہ اس کا ہی تو گھر ہے ہم تو آج آئے کل چلے جانا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خالہ اور اس کا بیٹا اتنے معصوم بھی نہیں کہ وہ نہ جان سکیں کہ ان کی اس گھر میں کیا حیثیت ہے۔بیٹا بھی اپنی خالاؤں کی طرح اپنی ماں کو خالہ کہہ کر پکارتا ہے بسا اوقات تنگ آ کر کہتا ہے خالہ آپ کا گھر بھی بیچارہ پاکستان ہی ہے۔کہنے کو تو یہ ایک آزاد مملکت ہے چوبیس پچیس کروڑ کی آبادی ہے ایک نظام حکومت ہے ہر پانچ سال الیکشن کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ووٹ پڑتے ہیں اور کوئی تخت پر بیٹھ جاتا ہے۔تخت پر بیٹھتے ہی اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ پاکستان کی تین چار بڑی خالائیں ہیں وہ سب اس پر واری قربان جاتی ہیں۔مگر اس کو ایک پل چین لینے نہیں دیتیں۔خالہ نے کب اٹھنا ہے کب سونا ہے کب جاگنا ہے اس کے اختیار میں ہی نہیں۔ایک خالہ آتی ہے بلکہ آ دھمکتی ہے اس کی مٹھی میں کرکرے نوٹ تھماتی ہے اور دوبارہ جلد آنے کا کہہ کر چلی جاتی ہیں۔ابھی دو دن گزرتے نہیں کہ دوسری خالہ آ جاتی ہے۔خالہ کا گھر نہیں ملک پاکستان ہے یا ملک پاکستان نہیں خالہ کا گھر ہے دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں اور ایک تار دیکھتے چلے جاتے ہیں۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply