آستین کے سانپ/مہر آب خان

“شاشان کی چوٹی سے”
بین المذاہب کا عالمی مرکز بیت المقدس سمیت فلسطین میں یہودیوں نے مسلمانوں پر خون کی ہولی کھیلنا شروع کررکھا ہے۔ مسلمان ممالک خاموش تماشائی بنے ہوۓ ہیں ۔ اس آستین کے سانپ کو اپنی  آستینوں سے نکال کر با ہر کردیں گے ۔ کیا ایسا ممکن ہے ۔نہیں !تو پھر وہی کھیل تماشا  کھیلنے چاہئیں ۔ ولی عہد ایم بی ایس تو یہودیوں کا آلہ کار بنے ہوۓ ہیں ۔اسرائیل کو نیوم سٹی   سمیت بہت بڑا علاقہ دینے کو تیار دکھائی دیتا ہے ۔جہاں دونوں پارٹنر کے طور پر تجارت کا آغاز کرنے والے ہیں ۔

رومیوں نے عیسا ئی مذہب قبول کرنے پر شام اور یورپ میں ان کی زندگی اجیرن کردی   تھی  ۔ ان کا قتل عام کیا گیا حتی کہ ان  پر ظلم کے پہاڑ ڈھا  ئے گئے  ۔یہودیوں نے   اپنی جان اور نسل بچانےکے لے لیے  مسلمان ملکوں کی طرف رخ کیا ۔جہاں مسلمانوں کی  ہی حکومت ہوا کرتی تھی۔

عیسا ئیت اپنا نے پر ان کو بیت المقدس سے بے دخل کر دیا گیا ۔حتی کہ ان کی عبادت گاہیں تباہ کردی گئیں۔ 637ھ ہجری حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں بیت المقدس فتح ہوتا  ہے تو یہودیوں کو وہاں مکمل زیارت کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ جبکہ اس سے قبل عیسائیوں نے ان پر پابندی عائد کر رکھی تھی ۔

جس چٹان پر قبةالصخراء Dome of r rock بنا ہوا ہے اس  کو کچرے کے ڈھیروں میں تبدیل کر کے رکھ دیا تھا ۔ کیونکہ یہودی اس چٹان کو مقدس مقام کے طور پر مانتے چلے آرہے ہیں ۔
اس چٹان کے کچروں کو حضرت عمر فاروق رض نے اپنے مبارک ہاتھو ں سے صاف کردیا ۔اسی کو کہتے ہیں ا مراءالامیر , امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم۔

سعودی ولی عہد کی  یہودیوں سےدوستی اور اچھا لگاؤ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ صلیبی جنگوں کے بعد عیسائی وہاں پر قابض ہوگئے تو مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام کردیا گیا ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب بیت المقدس فتح کیا  اور سلطنت عثمانیہ کے دور میں یہودی وہاں قلیل تعداد میں آباد رہے لیکن عیسائیوں کےظلم و جبر والی زندگی سے بہتر حالت میں رہے۔

یورپ اور روس میں انیسویں صدی کے دوران عیسائیوں نے وہاں یہودیوں کے خلاف نفرت کی آگ لگا رکھی  تھی  ۔ان حالات سے تنگ آکر یہودیوں نے وہاں سے نقل مکانی بھی شروع کردی۔جرمنی مشرقی یورپ اور روس سے لاکھوں کی تعداد میں یہودی بے گھر ہوۓ ۔ ان کی بڑی تعداد برطانیہ ,امریکہ میں چلی  گئی اور چھوٹی تعداد نے فلسطین کا رخ کیا ۔اسی دوران صیہونی  تحریک کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہوگئے ۔اس تحریک کا مقصد تھا کہ ان کے لیے اپنا الگ ملک قائم کرناتھا ۔اس میں وہ کامیاب ہوگئے ۔

یورپ امریکہ  اور فلسطین میں اس تحریک نے زور پکڑا  ۔رفتہ رفتہ یہودیوں نے فلسطین پر اپنے قدم جمانے  شروع کردیے  ۔ان کے  نرم و ملائم قدم فلسطینوں کے سینوں پر گہرے سے گہرے ہوتے گئے۔کیونکہ عرب عیاش پرست ہے ۔ عیاشی کے لیے انہیں پیسوں کی ضرورت ہوتی تھی ۔اسی لیے انہوں نے بلوچوں کی طرح بھی اپنی زمینیں چھوٹی سے  چھوٹی رقم کے عوض یہودیوں کے ہاں فروخت کرنا شروع کردیں ۔

فلسطینیوں نے ان پیسوں سے غلیل اور چھوٹے ہتھیار لیے ۔جبکہ بلوچوں نے انہی پیسوں سے چنگچی رکشہ اور موٹر سائیکل لیے، جب پیسہ ختم   ہوگیا،تو انھیں  فروخت کے  لیے زمینوں پر ان کے ہاں چوکیداری کرنے لگے ۔

دیکھتے  ہی دیکھتے   فلسطین میں عرب اقلیت میں اور یہودی اکثریت میں تبدیل ہوتےگئے۔ سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیر نے کے بعد عرب کے مختلف علاقے مختلف یورپی طاقتوں کے قبضے میں آگئے ۔فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا۔
Balfour declaration
کہا گیا ہے کہ برطانیہ فلسطینن میں یہودیوں کو آباد کرنے اور آزاد یہودی ریاست بھی قائم کرےگا ۔

1947 میں اقوام متحد ہ  نے فیصلہ دیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کردیا جاۓ ۔جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے زیر کنٹرول رہے گا ۔جس طرح کشمیر بھی چلا آرہا ہے۔اسی طرح بیت المقدس بھی اسی فارمولے کا حصہ ہوگا ۔ یہودیوں نے اس فارمولے کو قبول کردیا ۔جبکہ فلسطینی اور عربوں نےاس کو یکسر مسترد کردیا ۔اور اسی طرح 1948 کو اسرائیل کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ۔
اسرائیل نے بیت المقدس سمیت بہت سی جگہوں پر قبضہ کرلیا۔اور اسی طرح عرب ممالک جس میں لبنان, شام, اردن اور مصر شامل تھے ،نے فلسطین کے کچھ حصوں پر اپنے قدم جماۓ رکھے۔
یہی یہودی جن کے لیے مسلمانوں نے عظیم سے عظیم تر قربانیاں دیں، لیکن عظیم قربانیاں فراموش کرنے والے یہودی رہتی دنیا تک مسلمانوں کے لے آستین کے سانپ کا کردار نبھا تے رہیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply