سیاہ رنگ۔۔بنت الہدیٰ

رنگوں سے کھیلنا آسان نہیں کہ ہر رنگ اپنی ایک آواز رکھتا ہے۔ اپنی ایک صدا۔۔ اپنا ہی ایک ردھم۔
مگر انہی بولتے ہوئے رنگوں میں سے ایک رنگ خاموشی کا استعارہ ہے۔جب کینوس پر بکھرے سارے رنگ مل کر خوب شور کرنے لگتے ہیں تو یہ رنگ اپنے ایک ہی اسٹروک سے ہر آواز کو مکمل خاموش کردیتا ہے۔رنگ برنگے فتنوں کے شور و غوغا سے عاجز آ کر میں نے برش اٹھایا اور اس خاص رنگ کا انتخاب کرتے ہوئے اسے کینوس پر پھیلا دیا۔
نیلے،پیلے، سبز،سفید حتی کہ کینوس پر لگے ہر رنگ کی آواز اس ایک رنگ کی گہرائی میں کھو گئی۔اور پھر جیسے مکمل سکوت چھا گیا۔میں نے اس رنگ کو گہری خاموشی کا نام دینا چاہا،مگر نہ دے سکی،کہ کینوس پر اسٹروک لگتے ہی اس رنگ کے بوجھ تلے دم توڑتی آوازیں اسے سیاہ رنگت دے چکی تھیں۔۔
سیاہ رنگ کی یہی ایک خاصیت مجھے پسند ہے۔
یہ بظاہر خاموش ہوتے ہوئے بھی پُرسکون نہیں کہ اس میں قید ہو جانے والی آواز کی لہروں کا طلاطم اسے ہر لمحہ مضطرب رکھتا ہے۔
اور اسی بے قراری میں سینے پر دستک دینے والے ہاتھ جب سیاہ لباس پر پڑتے ہیں تو الیکٹرک شاک کا کام کرتے ہوئے،تاریخ کے سیاہ پنّو میں چھپائے گئے تمام خوشنما و پاکیزہ رنگوں کی آواز بن کر درد سے چیخ اٹھتے ہیں۔اور سننے والوں کو   مظلوم  کی صدائے احتجاج سنائی دیتی ہے۔
سیاہ رنگ کی خاموشی اپنے آپ میں ایک طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
دنیا والوں کے لیے سیاہ رنگ سوگ کی علامت ہوسکتا ہے۔مگر میرے لیے یہ انتظار کی علامت ہے، کہ ہر عزادار منتظر ہے۔سیاہ رات کے بعد آنے والی اس سحر کا۔
جس میں کینوس پر بنائی جانے والی تصویروں میں سیاہ رنگ کی کوئی جگہ باقی نہ رہے گی۔

Facebook Comments

بنت الہدی
کراچی سے تعلق ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply