خدا کیا چیز ہے۔۔۔حسن کرتار

جہاں تک ادب کا معاملہ ہے کسی عام انسان کو یا ہر انسان یہاں تک کہ ذرے ذرے کو خدا سمجھنا عام سے بھی عام تر بات ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بڑے درویش اور دانا ازل سے ہر چیز کو خدا کا روپ قرار دیتے آئے ہیں۔ انا الحق بھی اسی سے ملتی جلتی بات ہے۔ پرانے یونان میں فلاسفرز کو خدا کا روپ کہا جاتا تھا۔ ہیراکلیٹس کہتا تھا کہ “ہر چیز خداؤں سے بھری ہوئی ہے” مسلمانوں کی ایک مشہور مذہبی ہستی کا بھی ایک قول ہے کہ عالم کی خدا جتنی قدر کرنی چاہیئے۔

ہندو تو خدا کو بہت ہی ایزی لیتے ہیں ۔ اسلۓ بے شمار دیوی دیوتا رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ عہدِحاضر میں سچن ٹنڈولکر اور رجنی کانت تک کو لوگوں نے خدا کا درجہ دیا ہوا ہے۔ ہر زندہ مذہب میں خدا کا اپنا درجہ ہے۔ سب لوگ خدا کو اپنے اپنے طریقے سے دیکھتے ہیں۔ ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ اس کا خدا ہی دراصل خدا ہے۔
اردو زبان کے بڑے شاعر میر تقی میر کہتے ہیں:
“پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا۔”
جون صاحب بھی بہت بلکہ بہت ہی خوب فرماتے ہیں:
“اب وہ حالت ہے کہ تھک کر میں خدا ہوجاؤں
کوئ دلدار نہیں کوئ دل آزار نہیں۔”
ساغر اپنی نگاہِ شوق کا کچھ یوں اظہار کرتے ہیں:
“میری نگاہ ِشوق سے ہر گل ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجئے”

ادب میں اور بالخصوص اردو ادب میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر یا ادیب ہو جس نے خود کو خدا سا نہ سمجھا ہو یا اسے خدا سے مسائل نہ رہے ہوں۔ غالب فرماتے ہیں:
“نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا”
ایک شاعر نے تو “تم اک گورکھ دھندہ ہو” کہہ کر اپنی جان چھڑالی۔ ایک اور شاعر نے سمجھا کہ شاید زیادہ خدا ہونا بھی کوئی اچھی بات نہیں اسلئے فرمایا: “خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے”

مشہور فلسفی ریاضی دان فیثا غورث تو سب سے آگے کی بات کر کے گئے: “انسان ہوتے ہیں، خدا ہوتے ہیں یا پھر فیثا غورث جیسی ہستیاں”
عہدِ حاضر کے بڑے ادیب چارلس بکاؤسکی بھی کچھ کم نہیں فرماتے:
“جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ خدا نہیں ہیں۔دراصل سوچ الٹ رہے ہوتے ہیں۔”
یا پھر ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
“خدا ناکام لوگوں کی ایجاد ہے”
آسکر وائلڈ اپنے مخصوص انداز سے کچھ اور ہی کہتے ہیں:
“عورتیں ہم مردوں کو ایسے ٹریٹ کرتی ہیں جیسے انسان اپنے خداؤں کو ٹریٹ کرتے ہیں۔ یہ ہماری پوجا کرتی ہیں اور انہیں ہر وقت ہی کچھ نہ کچھ ہم سے درکار ہوتا ہے”

ایک بار ایک صاحب نے بہت جوش سے کہا ہمارے خدا کی کتاب آسمانی ہے ۔ اور کوئی کتاب آسمانی نہیں اب۔ آپ نے ساتھ پڑے ایک پتھر کی طرف اشارہ کیا کہ یہ بھی آسمان سے آیا ہے۔تم بھی آسمان سے آۓ ہو میں بھی۔ زمین کی کوئ ایک ایسی چیز بتا دو جو آسمان سے نہ آئ ہو۔ زمین خود آسمان میں اڑ رہی ہے۔ اوپر بھی آسمان ہے نیچے بھی۔ دائیں بائیں ادھر اودھر بھی۔ یہ سب سن کر صاحب نے کچھ عجیب نگاہوں سے آپکی طرف دیکھا اور کہا اجازت چاہتا ہوں پھر ملیں گے۔

غرض جتنے منہ اتنے ہی خدا یا اتنی ہی خدا کے متعلق باتیں۔ برِصغیر میں موجودہ یا کچھ عرصے سے جاری مذہبی شدت پسندی سے پہلے ایک دوسرے کے مذاہب یا خداؤں کے متعلق لطیفے بنانا ایک عام بات سمجھی جاتی تھی۔ جب تک کہ انگریزوں نے سخت قوانین بنا کر اور دیسی حکومتوں نے ان سخت قوانین کو مزید سخت بنا کر پوری دنیا میں اپنا تماشہ بنانا شروع نہیں کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بلوچ قوم میں ایک بہت مشہور لطیفہ نسل در نسل چلا آرہا ہے۔
ایک بلوچ روزِ قیامت خدا کے حضور پیش ہوتا ہے۔ خدا بلوچ سے سوال کرتے ہیں کہ “ہاں بھائی بتاؤ کہ زمین پہ کیا کیا کرتے رہے؟” بلوچ بجائے جواب دینے کے الٹا خدا سے سوال کرتا ہے کہ : “جناب پہلے یہ بتائیں کہ آپ کیا کرتے رہے ہیں؟”
خدا تھوڑا سا مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: “میں بندے بناتا رہا ہوں” بلوچ اپنی داڑھی ہاتھ میں پکڑ کر اپنا منہ خدا کے آگے کرتا ہے اور کہتا ہے: “ایسے بناتے ہیں بندے؟”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply