• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اردو نظم اور معاصر انسان ” از ڈاکٹر طارق ہاشمی/تجزیہ و تنقید: منصور ساحل

اردو نظم اور معاصر انسان ” از ڈاکٹر طارق ہاشمی/تجزیہ و تنقید: منصور ساحل

یہ کتاب اردو نظم میں انسان کی پیش کش کے تصورات پر مشتمل ہے پیش لفظ میں ڈاکٹر طارق ہاشمی نے پوری کتاب کا مختصر تعارف اور اردو نظم میں تصور انسان کے حوالے سے مختلف سوالات اور خدوخال واضح کرنے کی کوشش کی ہے کتاب کا پہلا باب کلاسیکی اردو شاعری کا احاطہ کرتا ہے اس باب میں کلاسیکی معاشرے (خدا مرکز معاشرہ) میں انسان کی حیثیت و متعلقہ تصورات زیر بحث ہیں۔ اس معاشرے کے شعرا کے نزدیک انسان نیابت الہٰی کے منصب پر فائز اور خدا کی تخلیق کا سرتاج ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر طارق ہاشمی نے ابتداء ولی دکنی کے تصور انسان سے کی ہے کہتے ہیں “ولی کےنزدیک انسان کائنات کے بارے میں بحث و تکرار کرتا ہے لیکن موجودات کی حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتا وہ نہیں جانتا کہ اس کے وجود کی اصل کیا ہے” (۱۳)۔ ولی کے بعد میر تقی میر کی شاعری میں تصور انسان کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے میر کے کلام میں انسان شان ارفع اور مسجود ملائک کے ساتھ ساتھ اسفل سافلین یعنی دونوں حالتوں کا مجموعہ ہے ۔ڈاکٹر طارق ہاشمی میر کے تصور انسان کے بارے میں مزید لکھتے ہیں “میر کی شاعری میں انسان اپنی تمام تر آلائشوں کے باوجود کائنات میں ارفع مقام کا حامل ہے اور اس کا جذبہ عشق اس میں ایسا حوصلہ پیدا کرتا ہے جو اسے اس قابل بناتا ہے کہ زندگی کے مسلسل دکھو کا مقابلہ جرات سے کرے “(۱۶)
درد کی شاعری کو تصوف اور جذب کی شاعری کہا جاتا ہے اس لیے ان کا انسان ایک صاحب نظر انسان ہے جو مشاہدہ اور تفکر کے بعد کائنات اور انسان کے بارے میں اپنا نقطہ نظر اپناتا ہے
کلاسیکی شاعری میں غالب کی شاعری کو نمایاں حیثیت حاصل ہے اس لیے ڈاکٹر طارق ہاشمی نے غالب کے تصور انسان کو مذکورہ بالا کے بہ نسبت زیادہ اہمیت دی ہے ۔ اس کتاب میں غالب کی شاعری میں جس انسان کے حوالے سے لکھت کی گئی ہے وہ انا پرست ہے جسے پوری دنیا ایک بازیچہ اطفال نظر آتی ہے اس کے علاؤہ یہ انسان وبائے عام میں مرنا بھی نہیں چاہتا۔ غالب کا انسان وجودی بھی ہے اور رجائی بھی۔ یہ انسان موجود ہر رشتے سے بیزار بھی ہے اور کبھی یہ بیزاری طنز کی صورت بھی اختیار کرتی ہے
ذوق کا انسان تربیت نفس کے ساتھ ساتھ عشق کی زمہ داری بھی قبول کرتا ہے اور اس قبولیت کی وجہ سے ایک اخلاقی و مکمل انسان ذوق کی شاعری کے منظر نامے پر نمودار ہوتا ہے
ڈاکٹر طارق ہاشمی کلاسیکی شاعری میں ان شعرا کے بعد مومن (قنوطی،عشق مجازی کا پیکر،)اور آتش(مرد فقیر،قانع انسان ،عظیم انسان، کے تصور انسان کی وضاحت کرتے ہیں
اس باب کے ذیلی حصے میں ڈاکٹر طارق ہاشمی نے نظیر اکبر آبادی کے تصور انسان کی نہ صرف پوشیدہ پرتوں سے پردہ اٹھایا ہے بلکہ شعری مثالوں اور ناقدین کی آرا سے ان کے تصور انسان کو واضح کرنے کی کوشش بھی کی ہے لکھتے ہیں ” وہ اپنی شاعری میں ایک ایسے فرد کی تلاش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو مذہب و ملت کے مصنوعی امتیازات سے ماورا ایک انسان ہو اور وہ خود شناسی سے خدا شناسی تک کے سفر کو تقسیم پر مبنی تعلیمات کی بجائے اتحاد اور اکائی کے پیغام کی روشنی میں طے کرے” منظومات نظیر کے حوالے سے شامل کتاب صفحات کے مطالعہ سے نظیر کا انسان درجہ ذیل حصوں میں تقسیم ہوکر سامنے آتا ہے
1۔ فلسفہ فنا کا قائل انسان
2۔ محبت کے عقائد پر ایمان رکھنے والا انسان
3۔ تفریق و تقسیم سے ماورا انسان
4۔عرفان ذات کا ادراک رکھنے والا انسان
اقبال اور راشد کے تصور انسان کی تفہیم الگ باب میں کی گئی ہے اقبال کے تصورِ انسان کے حوالے سے ماہرین اقبالیات کی آرا درج ہیں اس حصے میں ڈاکٹر طارق ہاشمی نے اقبال کے تصور انسان کو اس عہد کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اس انسان کا سماج میں کردار کے حوالےسے بھی بحث کی ہے ۔ انسان کامل ،مرد کامل، مرد مومن ،مرد مسلمان،مرد خدا، درویش ، بندہ آفاقی جیسی لفظیات اس مضمون میں اقبال کے تصور انسان کو واضح کرنے کے لیے مستعمل ہیں ۔ اقبال کا انسان مرکز مکاں بھی ہے اور مرکز لا مکاں بھی ۔ اقبال کے نزدیک یقین اور ایمان کی پختگی انسان کو نوری و روحانی کیفیات کا پیکر بناتی ہے ۔ مرد مومن کی صورت میں اقبال کا انسان تمام تر صفات و اعمال کا نمونہ ہے اور یہ مومن عشق کی بدولت جہاں نو کی تخلیق کرتا ہے
راشد کے تصور انسان پر ڈاکٹر صاحب نے کھل کے بات کی ہے کیوں کہ راشد و میراجی کا انسان جدید دور کا منتشر انسان ہے ۔ راشد کی شاعری کا بنیادی موضوع انسان ہے اس حصے میں ماورا سے لے کر گماں کا ممکن تک راشد کے انسان کا ذہنی و نفسیاتی ارتقاء کا جائزہ پیش کیا گیا ہے
ماوراء میں یہ انسان مجبور،بے بس، لاچار، فرار اور غلامی کی فضا میں زندگی سر کررہا ہے ایران میں اجنبی میں اس انسان کی نوعیت الگ ہے یہاں انسان خود اعتمادی اور مقابلہ کرنا سیکھتا ہے اور نئے سفر پر نکلتا ہے لا مساوی انسان میں انسان کی شناخت کی تلاش ملتی ہے اور اس کے لیے یہ انسان عالمی منظرنامے کی تفہیم کے لیے کوشاں ہے اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب یوں لکھتے ہیں “ماورا کا انسان اعصاب زدہ اور نا مطمئن ہے۔ایران میں اجنبی میں یہ انسان اگر چہ اعصاب زدگی سے نجات حاصل کرچکا ہے تاہم اس کے مسائل کا دائرہ مشرق تک محدود ہے لیکن لا مساوی انسان میں راشد نے ایک ایسے انسان کا تصور دیا جس کے مسائل عالمی نوعیت کے ہیں گماں کا ممکن میں راشد نے اسی عالمی انسان کے خواب دیکھے جو انسان کو رنگ ،نسل اور قومیت کی جکڑ بندیوں سے آزاد کرے”
تیسرے باب میں ترقی پسند ،حلقہ ارباب ذوق و دیگر شعرا کی نظم میں تصور انسان کا جائزہ لیا گیا ہے ۔اس باب کے ابتدائی حصے میں ترقی پسند فکریات کے حامل شعرا اقبال ، جوش(انقلابی،جوشیلا طاقت ور،عقل پرست،)،فیض احمد فیض (اجتماعی سوچ کا حامل انسان،آزادی کے لیے کوشاں،مارکسسٹ،انصاف پسند )،ظہیر کاشمیری(وجدانی انسان،آزاد پرست) اور احمد ندیم قاسمی(انسان عظیم ہستی،خیر کی علامت،جمالیاتی پیکر،امن و خوشحالی پسند)کی نظموں میں انسانی محرکات و شناخت کی پرتیں کھولنے کی کوشش کی گئی ہے اس کے بعد حلقہ اربابِ ذوق سے وابستہ شعرا کا ذکر ہے ان لوگوں نے انسان کے بارے میں جن تصورات کا اظہار کیا ہے ڈاکٹر صاحب نے ان تمام کا احاطہ کیا ہے
غیر وابستہ شعرا میں مجید امجد ،اختر الایمان ، منیر نیازی ،عزیز حامد ،وزیر آغا اور مصطفی زیدی شامل ہیں ان شعرا کے تصور انسان پر ڈاکٹر صاحب نے تفصیلی بحث کی ہے لیکن یہاں میں ان شعرا کے انسان کو مختصراً بیان کروں گا
مجید امجد۔ انسان مجبور محض وجود، موت کی طرف راغب،طبقاتی کشمکش کا شکار،قنوطی بھی اور رجائیت پسند بھی
اختر الایمان ۔ انسان طاقتور ،لیکن یہ انسان زندگی کی آرزو سے عاری،مستقبل سے بے خبر ،مشینی انسان
منیر نیازی ۔ خوف زدہ ، انسان کی تلاش ، جمال پسند،
عزیز حامد مدنی ۔ سائنسی مزاج رکھنے والا،
وزیر آغا ۔ انسانی وجود کے تشخص پر سوال اٹھانے والا،انسان فطرت کا حسین روپ، قنوطیت پسند،
مصطفی زیدی ۔ ترقی پسند نظریات کا حامل ، محدود و دیواروں کا پابند ،
آخری باب انسانی شناخت اور اردو نظم کے معاصر منظر نامے کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔نئی نظم معاشرے کے بجائے انسانی شناخت کو اپروچ کرتی ہے شعرا کی اس کھیپ میں سلیم احمد ،جیلانی کامران ،اختر حسین ،صفدر میر، سلیم الرحمن ، افتخار جالب ، جاوید شاہین، انیس ناگی ، زاہد ڈار، ساقی فاروقی ، آفتاب شمیم اقبال، وغیرہ شامل ہیں ان شعرا کی نظم میں تصور انسان پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں “نئی نظم کا بنیادی فکر مسئلہ زندگی کے میلے میں فرد کی یہی تنہائی ہے ۔ نئے شعرا نے اس تنہائی کے اسباب و اثرات کو اپنا تخلیقی موضوع بنایا اور عصری فضا میں فرد کے تشخص کے سلسلے میں بہت سے سوالات اٹھائے “کتاب کی معاصر نظمیہ کائنات میں رفیق سندیلوی ،افضال احمد سید،جاوید انور ، اختر عثمان،علی محمد فرشی پروین طاہر، مقصود وفا،روش ندیم، سلیم شہزاد ، سعید احمد، قاسم یعقوب ، دانیال طریر، غائر عالم،ارشد معراج، عمیر واصف، عامر عبداللہ اور خوشحال ناظر کی نظم میں انسان کی عہد موجود میں شخصی و سماجی ساخت ، اجتماعی اضطرابیت ،بے زاری و لاچاری اور مروجہ فوقیتی ترتیب کے خلاف احتجاج پر ڈاکٹر صاحب نے مفصل و مدلل گفتگو کی ہے
ڈاکٹر طارق ہاشمی تنقیدی بصیرت و بصارت اور تحقیقی وقار کے مالک ہیں مجموعی طور پر ان کی یہ کتاب کلاسیکی نظم سے لے کر جدید ترین نظم کی شعری کائنات کی تفہیم کراتی ہے۔

Facebook Comments

منصور ساحل
اردو لیکچرر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چارسدہ ایم فل اردو (ادب اور سماجیات) مدیر برگ ادب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply