عورت مارچ کو کامیاب بنائیں۔۔ذیشان نور خلجی

آٹھ مارچ آنے کو ہے لہذا ہر سو عورت مارچ کی گونج سنائی دے رہی ہے جس میں ‘میرا جسم میری مرضی’ اور کچھ ذومعنی قسم کے نعروں کا شور بلند ہو گا۔ لیکن اس سے پہلے ہی یہاں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے۔ جب ایک نجی چینل پہ معروف پلے رائٹر خلیل الرحمان قمر اور فیمینسٹ خاتون ماروی سرمد کے درمیان تکرار، اخلاقیات کی حدیں عبور کر گئی۔ اور اب کوئی ان صاحب کو درست کہہ رہا ہے اور کوئی ان خاتون کو شاباش دے رہا ہے۔ لیکن مجھے یہاں منصفی نہیں کرنی، بس ایک نفرت انگیز رویے کا احساس دلانا ہے، ان دنوں اکثریت جس کا شکار نظر آتی ہے۔
خلیل الرحمان قمر متنازع ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی مقبول رائٹر کی حیثیت بھی رکھتے ہیں اور ایسی شہرت شاید ہی کسی دوسرے لکھاری کے حصے میں آئی ہو۔ اس حد تک میں بھی ان سے متاثر ہوں۔ اس لئے ان کے بارے میں زیادہ ہرزہ سرائی سے گریز کروں گا۔ مبادا، میرا رشک حسد میں نہ بدل جائے۔

گو یہ بات واضح ہے کہ گفتگو کو اس نہج تک پہنچانے میں فریق ثانی کا کتنا کردار تھا۔ اور جس طرح انہیں بار بار اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی اس کا یہی نتیجہ نکل سکتا تھا۔ لیکن جرم کی توجیہہ بذات خود جرم ہے۔ اس لئے جو بات غلط ہے وہ خلیل الرحمان قمر کے لئے بھی غلط تسلیم کی جائے گی۔ لیکن ہمارے کچھ رائٹر حضرات ان پہ اس طرح سے طعن و تشنیع کر رہے ہیں کہ واضح ہوتا ہے یہ حب فیمینزم نہیں بلکہ بغض خلیل کا شاخسانہ ہے۔ کیا کسی کے نام بگاڑنا اور ذاتیات پہ حملے کرنا مہذب رویہ ہے؟ اگر آپ خلیل الرحمان قمر کے موقف سے اختلاف رکھتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ ان کا نام بگاڑنے میں بھی آزاد ہیں؟ اگر آپ کا یہ رویہ درست ہے تو پھر خلیل الرحمان قمر کا رویہ بھی درست ہے کہ انہیں تو چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے باقاعدہ اشتعال دلایا گیا۔ اور اس بغض میں ایسے ایسے استادوں کا نام بھی سامنے آ رہا ہے کہ میری خوش فہمی تھی ان سے سیکھنے کو بہت کچھ مل سکتا ہے۔

خیر ! اس نعرے کی بات کرتے ہیں جو نزاع کا باعث بنا۔ ‘میرا جسم میری مرضی’ میں نہیں سمجھتا کہ اس میں ایسی کوئی بات ہے کہ طبل جنگ بجا دیا جائے۔ کیا ایک عورت کو، اپنے جسم کو لے کے بااختیار نہیں ہونا چاہیے؟ اس منافقت بھرے معاشرے میں جہاں عورت گھر میں بھی محفوظ نہیں، کیا اس کو اتنا اختیار بھی نہیں ملنا چاہیے کہ وہ کسی مرد سے اپنے جسم کی حفاظت کر سکے؟ کیا ایک عورت کو حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے جسم کے بارے حقوق ملکیت رکھتی ہو اور با اختیار ہو کہ اپنی جانب اٹھنے والے ناپسندیدہ ہاتھوں کو روک سکے؟ کیا اسے اتنی طاقت نہیں ملنی چاہیے کہ راہ چلتے کوئی آدمی اس کی مرضی کے برخلاف اسے چھو نہ سکے؟ واضح رہے ہمارا معاشرہ کوئی دودھ سے دُھلا معاشرہ نہیں اور نہ ہی ہم لوگ کوئی بڑے متقی واقع ہوئے ہیں۔ لہذا اس سے ہماری معاشرتی اقدار کو خطرہ نہیں ہو گا بلکہ وہ مزید مضبوط ہوں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ نعرے ایسے بھی ہیں جو اخلاقیات سے عاری ہیں۔ اور میرا خیال ہے انہی کی وجہ سے پورا عورت مارچ ہی مشکوک ٹھہرا۔ لیکن اب عدالت نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے کہ ایسے اخلاق باختہ نعروں سے گریز کیا جائے۔
اس لئے خدا راہ ! ایسی نزاعی صورتحال پیدا کرنے سے گریز کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ خود آگے بڑھ کر عورت مارچ کو کامیاب بنایا جائے۔ کیوں کہ یہ ہماری ہی عورتیں ہیں اور اگر ہم ان کی عزت اور تحفظ کے لئے نہیں اٹھیں گے تو پھر کون اٹھے گا؟
اور اگر ہم نے ان لایعنی اختلافات کو ایسے ہی ہوا دئیے رکھی اور خود آگے بڑھ کر فیمینزم کا پرچم نہ تھاما تو پچھلے سال جو بات ‘اپنا کھانا خود گرم کر لو’ کی حد تک تھی اس مرتبہ چند شر پسند عناصر کی بدولت بہت دور تلک جائے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply