ایک مختصر نوٹ۔ بین المتونیت کے بارے میں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

“If we steal thoughts from the moderns, it will be cried down as plagiarism, if from the ancients, it will be cried up as erudition.(HAZLITT.)
Immature artists imitate. Mature artists steal. (LIONEL TRILLING.)

ایک ۔ ہم ،۔۔۔یعنی نیم خواندہ نقاد۔۔۔ سرقہ کا الزام کس پر لگائیں گے، شیکسپیئر پر، جس کے ڈراموں میں سے سترہ ڈراموں کے پلاٹ ماخوز ہیں، جس کے کرداروں کے منہ میں ڈالے گئے مکالمات میں بیسیوں دیرینہ متون کی بھنک ملتی ہے؟ یا فی زمانہ ٹی ایس ایلیٹ پر جس کی شہرہ آفاق نظم, دی ویسٹ لینڈ میں ایک سو تہتر (173)متون کی زر بافی کسی دیرینہ یونانی، رومائے قدیم یا یورپی زبانوں کے مشاہیر ِ ادب کے تحریر کردہ متون کی مرہون ِ منت ہے۔ ایلیٹ کی جملہ شاعری میں اکیلے انجیل سے ہی دو سو اکیاسی (281)متون کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔شیکسپیئر کے عہد میں تو یہ ضروری بھی نہیں تھا (اور اب بھی ضروری نہیں ہے) کہ شاعر خود ان متون کی نشاندہی کرے جن کو اس نے اپنی عبارت میں جذب کر لیا ہے۔ یہ کام تو نقادوں کا ہے، جو آج تک عرق ریزی سے ان کو تلاش کرتے رہے ہیں۔ (انگریزی سے ترجمہ، پروفیسر ای لال، کولکاتہ، رائٹرز ورکشاپ)

دو ۔ بد قسمتی سے ہوا یہ ہے کہ اردو میں خصوصاً ایک طبقہ ان خود ساز ’’نقادوں‘‘ کا بھی موجود ہے جو ابھی تک سرقہ، توارد)وغیرہ کی کرم خوردہ اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں، جو یورپی ادب سے نا بلد ِ محض ہیں۔ جنہیں Inter-textualityکے بارے میں کچھ علم نہیں، اور اگر اپنی خوش قسمتی اور اردو ادب کی بد قسمتی سے وہ کسی رسالے کے مدیر بھی بن بیٹھے ہوں تو پھر جو چور کی سزا وہی اس شاعر یا ادیب کی جو ’’ پڑھا لکھا‘‘ ہے اور جو بین المتونیت کی تھیوری کو سمجھتا ہے۔
(تین) ۔رولان بارتھ کے ارشادات نے یورپی ادب میں سمند ر کی لہروں کی طرح وہ ارشادات پیدا کیے جن کا جزر و مد دنیا بھر کے ادب کو سمجھنے میں اور اہم متون کے حوالہ جاتی پیش رو تحریروں سے تلاش میں معاون ثابت ہوا ہے۔ مختصراً یہ کہ ۔۔۔۔

۰کوئی بھی متن اپنے تحریر شدہ مواد میں خود کفیل نہیں ہے۔ اس میں دیگر متون کے اثرات موجود ہیں،یہاں تک کہ ہر ساختیہ، ہر لفظ، ہرجملہ یا تو گذشتہ خزینوں سے بجنسہ ہی مستعار لے لیا گیا ہے، یا اس پر ان کا ’’سایہ‘‘ ہے۔

۰ ’’طبع زاد‘‘ کی کوئی ’’حیثیت ‘‘اس لیے نہیں ہے، کہ اس کی کوئی ’’حقیت‘‘ نہیں۔ طبع؟ کون سی طبع؟۔۔وہی جس پر لکھاری کے مطالعہ، مشاہدہ، لوگوں کے ساتھ زبانی بول چال کے ہزارہا رنگ چڑھ چکے ہیں؟

۰دنیا کی پہلی کتاب ’’رِگ وید‘‘ سے لے کر آج تک کسی بھی ایسی تحریری متن کا وجود نا ممکن ہے، جو خود کفیل ہو، جس کی بابت کہا جا سکے کہ یہ پہلے نہیں کہا گیا، جو باکرہ نفس ہو، جسے پہلے کسی نے نہ چھوا ہو ۔’’پہل‘‘ (الست) نام کی کوئی شے نہیں۔ ہر شئے کے سابقون ، اوّلون موجود ہیں۔

۰ ’’بہم دگر بافتن‘‘ ہی ایک کلیہ ہے جو ادبی اقتضا کو ’’دریافت‘‘ ۔۔۔ یعنی ۔۔۔ ’’در‘‘ اور ’’یافت‘‘ سے کشید کر سکتا ہے۔

تو (تین)ہمیں یہ طے کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہیے کہ موضوع، مضمون، مد ِ نظر معاملہ، امر زیر بحث، مادہ، فکر یا تحریک اور ان سب کے حق میں دلائل پیش کرنے، مالہ و ما علیہ تلاش کرنے او ر اسے اپنے الفاظ میں پیش کرنے میں اگر ہما شما کوکچھ مطابقت دکھائی دے تو یہ سرقہ نہیں ہے، اگر الفاظ میں بھی مفاہمت ہے، ہم رنگی ہے، تو بھی یہ عین ممکن ہے کہ دو ذہن، دواصحاب فکر، دو اہل قلم ایک جیسا ہی اسلوب رکھتے ہوں۔اردو میں ہی درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔۔ سرقہ نام کی کوئی بدعت صرف اس وقت ورطہ ٔ جرم میں آتی ہے جب لفظ بلفظ کوئی متن بغیرواوین کے استعمال کے، بغیرمصنف، مضمون، کتاب یا سر چشمہ ٔ اصل کا نام دیے، اگرمطبوعہ شکل میں پیش کیا جاتا ہے، تو وہ ’سرقہ ‘ہے، لیکن یہاں بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ عین ممکن ہے ، مصنف سے اصلی source کا حوالہ دینا بے دھیانی میں ہی چھوٹ گیا ہو، یا پروف ریڈر کی بے احتیاطی کی وجہ سے رہ گیا ہو ۔

Advertisements
julia rana solicitors

’توارد‘ نام کا کوئی بھی کانسیپٹ مغربی تنقید میں موجود نہیں ہے۔ سب کچھ جو توارد کے ذیل میں آتا ہے، وہ بین المتونیت ہے ۔
( 1977 )

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply