ایک تھپڑ اور ۔۔۔سید شاہد عباس

موٹر سائیکل والے کی مرضی ہوتی ہے کہ سائیکل والا پیدا ہی کیوں ہوا ہے، اُس کو تو ہونا ہی نہیں چاہیے، خوامخواہ راستہ روک لیتا ہے۔ کار والا ہمیشہ یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ بھئی ٹریفک میں روانی کا سب سے بڑا مسئلہ تو موٹر سائیکل سوار ہیں، ان کو جدھر سے جگہ ملتی ہے نکل جاتے ہیں، ٹریفک بلاک ہو جاتی ہے اور بے چارے کار والے پھنس جاتے ہیں۔ نئی نکور کاروں والوں کو پرانے ماڈل کی کاروں سے ہمیشہ ہی گلہ رہتا ہے کہ وہ نہ خود تیز چل سکتے ہیں نہ نئی کار والے کو تیز گاڑی دوڑانے دیتے ہیں، وجہ یہ کہ ان کی سست روی سے وہ تیز نہیں چلا سکتے کہ حادثے کا امکان ہوتا ہے۔ ان کا تو خیال ہے کہ پرانی گاڑیوں پہ بین لگا دینا چاہیے۔ چمکتی لینڈکروزر والے کو شکوہ کہ یہ کاروں والے آخر پیدا ہی کیوں ہوئے ہیں، ان کی گاڑیوں کے لیے الگ لین کیوں نہیں بنی جہاں وہ فراٹے بھرتے آئیں، فراٹے بھرتے جائیں، نہ کوئی روکنے والا ہو نہ کوئی اوورٹیک کرنے والا۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ اگر لینڈکروزر کالی ہو اور ہو بھی نئے نویلے ایم پی ائے یا ایم این ائے صاحب کی تو پھر تو کلٹس ہو نئے ماڈل کی ہی کار اس کی شامت تو آنی ہی تھی جیسے عمران علی شاہ کے ہاتھوں داود چوہان صاحب کی آئی۔ وہ پڑھے لکھے عمران علی شاہ سے زیادہ ہوں، یا اس وقت سے سرکاری عہدیدار کہ جب شاید عمران علی شاہ پیدا بھی نہ ہوئے ہوں، قصور تو بہرحال کلٹس والے چوہان صاحب کا ہی ہے کہ ایک تو گاڑی لینڈکروزر کے مقابلے میں کلٹس وہ بھی پرانے سے ماڈل کی اوپر سے ان کی جرات کہ کالی لینڈ کروزر میں بیٹھے ایم پی اے صاحب سے بحث شروع کر دی۔
تھپڑ تو انہیں یقیناً پڑنا ہی چاہیے تھا، ان کی جرات کیسے ہوئی  سوال کی، بحث کی، قصور پوچھنے کی۔ یہاں بنا قصور چھتر کھائے جانے کی روایت جب چل نکلی ہے تو چوہان صاحب اس روایت کو توڑنے والے کون ہوتے ہیں۔ اور بھئی میری تو تمام ہمدردیاں نو منتخب ایم پی ائے صاحب سے ہیں۔ وہ بے چارے کریں بھی تو کیا کریں ایک تو ان کی اپنی گاڑی بڑی ساتھ گارڈر کا لاو لشکر۔ اب کیا ایسے کلٹس جیسے معمولی گاڑیاں ان کو گزرتی شاہراہ پہ تنگ کرنا شروع کر دیں گی؟ بھلا بتاو، اب بندہ الیکشن لڑتا کیوں ہے، خرچہ کرتا کیوں ہے، بھئی اسی لیے نا کہ پروٹوکول ملے، جھنڈے والی گاڑی ہو، آگے پیچھے لوگ ہوں، تو کیا اتنا خرچہ کر کے اتنا حق بھی نہیں بنتا کہ کسی راہ چلتے کو دو چار ہاتھ ہی جڑ دیں؟ مجھے تو حیرانگی میڈیا پہ ہو رہی ہے کہ واویلا شروع کر دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اتنی بڑی انویسٹمنٹ کر دی ہے، اور کچھ اُمید بھی نظرآنے لگی ہے کہ انویسٹمنٹ کامیاب بھی ہو گئی ہے تو بھلا وہ مستقبل قریب میں اقتدار میں آنے کی اب پریکٹس ایسے تھپڑ سے ہاتھ سیدھا کر کے نہیں کریں گے تو کیسے کریں گے؟ حد ہو گئی ہے بھئی، یہی تو تبدیلی ہے نا۔ کہ سرِ راہ احساس دلایا جائے کہ ہاں میں ہوں تمہارا حاکم، میں ہوں تمہارا نمائندہ، اور میں ہی وہ خادم ہوں آپ بھولے عوام کا کہ جو ابھی صرف منتخب ہوا ہے اور حفاظتی دستے کے ساتھ مٹر گشت کر رہا ہے، تو تم عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ میرا ہر اچھا برا فعل سہتے جاو، اور خبردار جو سوال کرنے کی جرات پیدا کی، اور ہاں یاد رکھو یہ جو میں کسی واویلے کی وجہ سے اپنی کرسی بچانے تمہارے گھر آ گیا ہوں نا اس کو ہرگز میری کمزوری سے تعبیر نہ کرنا۔ میری کرسی بچ جانے دو تم سے اس معافی کے ایک ایک لمحے کو واپس لوں گا۔ اور یہ جو تم نے معافی کے بعد دبے دبے لہجے میں شکایت کی ہے نا اس شکایت پہ کان کھچائی بھی ہو گی، مگر اب کے ایسے کان کھینچے جائیں گے کہ نہ وہاں کوئی سر پھرا موبائل والا ہو گا جو ویڈیو بنا لے نہ وہاں ہجوم ہو گا جو بات کا بتنگڑ بنا لے گا۔
شکر کریں چوہان صاحب کو صرف تھپڑ پڑے ہیں، ورنہ جو باوردی گارڈز تھے اُن کے ہاتھ چڑھ جاتے تو لگ پتا جانا تھا، اور یہ تو مزید شکر کی بات ہے کہ کالی لینڈ کروزر میں شاید جگہ نہیں تھی ورنہ ایسی جگہ لے جاتے کہ چوہان صاحب دوبارہ ایسے کسی مرکزی شاہراہ کا پرسکون ماحول خراب کرنے کی جرات ہی نہ کرتے۔ اتنا سبق ویسے اُن کے لیے کافی ہو گا کہ، اُن کے لیے ہی نہیں بلکہ عام عوام کے لیے بھی یہ سبق کافی ہو گا کہ ایسے کسی دوسرے کی غلطی پہ بھی سب کے سامنے کسی سے بحث نہیں کرتے۔ اور اگر کوئی صاحبانِ اقتدار میں سے ہو اور اس کے پاس چمچماتی لینڈ کروزر بھی ہو تو پھر اپنی کلٹس بچا کے گزرنے میں ہی عافیت ہے، اگر آپ کی کلٹس کے بونٹ، شیشے، گٹے، گوڈے اس لینڈ کروزر نے تباہ بھی کر دیے ہوں تو اس سے نہ صرف معذرت آپ کیجیے بلکہ اس کی خراشوں کا کام بھی کروا کے دیجیے۔ اور دونوں ہاتھ جوڑ کے معافی مانگ کے اپنا راستہ ناپیے، اور کلٹس کو کسی پرسکون گوشے میں دھکا لگوا کے لیے جائیے۔ یہ آپ کا فرض ہے۔
اور باقی عرض بس اتنی سی ہے جو لوگ ایسے بحث پہ بہر صورت اُتر آئیں نا ان کو کس کے ایک اور تھپڑ دیجیے۔ ان کم عقلوں کی جرات کیسے ہو کہ وہ سوال کریں، اپنے علمیت جھاڑیں، اپنے آپ کو وہ عوام سمجھ بیٹھیں جن کے نوکر یہ عوامی نمائندے ہوتے ہیں۔ کس کے دیجیے ایک تھپڑ اور۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply