امن کی فاختہ/سلمیٰ کشم

“حماس کی یلغار تو بہانہ بنی اسرائیل کب سے تیار تھا غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے۔ حماس کی کاروائی ردِعمل تھی اسرائیل کے ظلم جبر کا جو نہتے مسلمان قدس کی حوالگی کے لیے سہہ رہے تھے ۔۔۔۔۔مگر۔۔”

پیچھے ایک زور دار دھماکا ہوا، سیٹلائٹ منقطع ہوگیا ،غزہ کے سینٹر میں واقع اسٹوڈیو میں بھگدڑ مچ گئی،کلمہ شہادت کی آوازیں بلند ہوئیں۔ ۔
انٹرویو دینے والا محمد حشام البینی اور لینے والا اینکر دونوں شدید زخمی ہوگئے۔۔  سات منزلہ عمارت جہاں نیوز چینل کا آفس تھا چاروں اطراف سے بری طرح تباہ ہوگئی، ملبہ لاشیں۔ اور سانس کھینچتے زخم زخم اجسام کی سسکیاں ۔ ۔

خوف موت کاخوف۔۔ نہیں ،نہیں زندگی کاخوف تھا ان کو، کہ اگر بچ گئے تو موت پلٹ کر زیادہ بےرحمی سے زندگی پہ وار کرے گی ۔

موت تو راحت نشیں بن چکی تھی ،زندہ بچ جانے والے نیم جاں نیم وجود کرب معلی سے دوچار تھے۔

کتنی لاشیں تھیں، کتنے مسخ شدہ نورانی چہرے ،کتنے بازو کٹے، ٹانگیں کٹیں،ملبے کے نیچے اندر ۔۔بہت اندر ، کچھ باہر اور اوپر ۔ ۔ پتھرائی آنکھوں کے سامنے  ۔ باپ، بھائی، بیٹے، لاڈلے ، پیارے۔۔۔  جان سے پیارے، نظروں کے سامنے تڑپ رہے تھے جاں  بہ لب جانیں۔ ۔

کچھ دیر تک ایمبولینس کے سارن تھے اور شفاء خانوں کی طرف دوڑیں۔۔۔۔۔۔
الشفا ہسپتال میں تمام زخمیوں کو لیجایا گیا۔
جہاں زندگی کی امید تھی جہاں ڈوبتی سانسیں بحال کی جاتی تھیں ۔

جہاں زخموں پہ مرہم رکھنے اور جی اٹھنے کی امید تھی۔

مگر پھر دوسری خبر بین الاقوامی نشریاتی اداروں پہ نشر ہوئی کہ الشفا ہسپتال غزہ پہ راکٹ حملہ ہوا ہے زخمی مریض اور لواحقین سانسوں کے کرب سے نجات پاگئے۔

اسرائیل آخر تک حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکاری رہا، سارا تماشا دنیا کے سامنے چلتا رہا ، سیز فائر کی ناکام اور نامکمل کوششوں کی کاروئی جارہی رہی مزمتی پیغامات جاری رہے احتجاج دھرنے سب ہوتا رہا۔

اس کشیدہ ماحول سے پہلے یہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی تھی ایک دوسرے کے ازلی دشمن اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے کے قریب آچکے تھے ۔عیش نشیں متحدہ امارات سسکتی انسانیت کا بچہ کچھا جسم گدھوں کی طرح نوچ کر مل بانٹ کر کھا رہے تھے ۔

حکمرانوں کی اندرونی پالیسیوں سے غافل،جوشیلے عوام ملکی سطح پہ جنگ رکوانے اور فلسطین کی مدد کے لیے فلسطین جانے کی باتیں کرتے ،مرنے مارنے کی باتیں ہوئیں۔
اور باتیں ہی باتیں ہوتی رہیں ۔
سب باتیں کرتے رہے۔

دنیا بھر کے نیوز چینل غزہ پہ اسرائیلی حملے کی خبروں میں مصروف تھے ، اور اسلامی ممالک مصروف تر ۔۔۔۔۔ اور وہ چینلز بھی جن کی نیوز کبھی عوامی توجہ نہ حاصل کر پائی آج وہ بھی لیول پہ آگئے تھے۔

ایران نے دھمکی آمیز مزمتی پیغامات دیے ، زخمیوں سے اظہار ہمدری کرتے رہے ،ترکی نے بھی مزاحمتی بیان دے کر مسلمانوں کی نمائندگی کی کوشش کی،عرب ممالک سے بھی یکے بعد دیگرے حکمرانوں کے مزمتی پیغام نشر ہونے لگے۔

شام، اردن ،ملائیشا، انڈونیشیا، مصر،عراق والوں کو بھی اپنے مسلمان ہونے کا احساس بولنے پہ اکساتا رہا ،یہاں تک کہ پاکستان سے بھی عوامی ردعمل ظاہر ہونے لگا ، گونگی بہری سماعتیں حرکت میں آنا شروع ہوگئیں ۔صحرائی خطے میں امریکی ساخت کا اسلحہ بارود لاشوں پہ لاشیں بچھا رہا تھا۔۔۔حملے پہ حملے ہورہے تھے ۔

بچوں کا بے دردی سے سرعام قتل ہورہا تھا،۔۔۔۔ حاملہ مائیں بچوں کو پیٹ میں لیے حملوں کی زد میں آرہی تھیں ، انسانی جنگ و جدل کی تاریخ کے خوفناک ترین اور خون آشام مناظر تھے ۔
مرنے والوں کے لیے کفن کم پڑ گئے دفنانے والے کم پڑنے لگے ۔۔۔۔۔ میڈیا پہ انسانی لاشوں کی منڈیاں سج گئیں۔

بڑے سے بڑا جگرا اور ذہن حواس باختہ تھا ،
اللہ کے نہتے بندوں پہ قیامت کا سماں ،مجبور بے بس لاچار اور تنہا ۔ بالکل تنہا ستاون اسلامی ممالک کے جانبازوں کے ہوتے اسلامی ایٹمی پلانر اور حکمت ساز طاقتور حکمرانوں کے ہوتے ہوئے یہ قدس کے محافظ اپنے آلام اور دکھوں میں آج تنہا تھے۔کیونکہ کہ مسلمانوں نے ایک دوسرے کا دکھ درد محسوس کرنا اور بانٹنا چھوڑ دیا تھا ۔

گھر گھر پہ حملہ مسجدوں پہ حملہ سکول پارک ہسپتال پہ حملہ ،پری میچور بچوں کی آکسیجن بند کر کے اللہ کی ننھی مخلوق کی نوازئیدگی کو جرم بنا دیا گیا ۔
آج ظلم کے ٹھیکدار خدا سے بھی بیر رکھ رہے تھے پھر جانے خدا کیوں چپ تھا ؟۔۔۔۔۔ کہ مسلمان چپ تھے؟۔

فلسطینی بچوں کے معصوم ذہنوں میں سوال ابھرتا کہ رب محمد ہمارے وجود کے چیتھڑے اٹھاتے والدین کے لیے قم کیوں نہیں کہہ رہا ۔ ۔۔

زمینی حقائق میں اسرائیل کے ساتھی امریکہ پہ سیز فائر کے لیے دباو بڑھتا گیا ۔۔۔۔ اسرائیل بے شمار دھمکیوں کی زد میں رہا ۔۔
لیکن کاروائیاں بڑھتی گئیں ، انسانیت کی پامالی ہوتی رہی ، معاہدوں کے اوراق رقص جنون کرتے رہے ،ان کی شقیں سامنے رکھے بڑے لوگ ایک دوسرے کو خاموش تکتے رہے۔۔۔۔۔ ،
سلجھاو کے معاملات الجھتے رہے
مطلوب مفادات کے زہریلے جام قند جان کر پیے جاتے رہے۔

وہ بدنصیب صحافی محمد حشام اتنے سخت حملے میں جانے کیسے بچ گیا ۔۔۔

اس کا پٹیوں کی اینٹھن میں جکڑا لہو رستا وجود زخم زدہ چہرہ کپکپاتے ہاتھ فریکچر شدہ انگلیوں والے پیر سلامت تھے،۔۔۔۔۔۔۔ یہ تقدیر کا ظلم تھا بہت بڑا ظلم کہ اس کے حواس قائم تھے ۔۔۔۔
وہ دیکھ سکتا تھا اگرچہ وہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔وہ بول سکتا تھا لیکن اس وقت الفاظ گم تھے زبان گنگ تھی۔۔۔۔۔سارے واقعات اس کے سینے میں برچھی کی طرح گڑے تھے ۔

ستم ظریفی تھی کہ ایک ذہین دماغ ابھی بھی کام کر رہا تھا ،اس کے خاندان کے متعدد افراد شہید ہوچکے تھے ۔۔۔۔کرب کی انتہا پر تھا مگر زندہ تھا یہ ذہین دماغ اب سب سے بڑی رکاوٹ تھی جینے میں۔ ۔۔۔

مشترکہ خیر سگالی کے غبارے زمینی سرحدوں سے کب کےنکل چکے تھے، ہاتھوں سے چھوٹے غبارے واپس آتے ہیں کیا۔۔۔۔؟

امن پسند ممالک اپنے بچوں کے مستقبل کی تابناکی میں مخمور رہے ،
لاچاری اپنی انتہا پر رہی

Advertisements
julia rana solicitors

مشرکہ آسمان پر امن کی فاختہ چین اور امن کے میٹھے نغمے گاتی رہی،اگرچہ اس کے سفید رنگ سے لہو ٹپکتا رہا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply