ٹیکسالی گیٹ/ساجد آرائیں

لاہور کے بارہ دروازوں میں سے ایک دروازہ ٹیکسالی گیٹ ہے جس کے اندر شاہی محلہ یا عرف عام میں ہیرا منڈی واقع ہے۔ اس بازار سے پہلا تعارف لڑکپن میں ہوا جب سکول سے پھُٹہ لگا کر اسے دیکھنے جاتے تھے۔ دن کے وقت ہو کا عالم ہوتا تھا۔ بائیاں سو رہی ہوتیں اور انکے مامے ناشتوں میں مصروف ہوتے تھے۔ انہی دنوں ہدایت کار محمد جاوید فاضل کی فلم دیکھی تھی جس کا نام “بازار حُسن” تھا۔ اداکار ندیم اور اداکارہ سلمی آغا کی بیمثال پرفارمنس سے سجی یہ ایک بلاک بسٹر فلم تھی۔ اگر فلم “ٹیکسالی گیٹ” کا موازنہ فلم “بازار حسن” سے کیا جائے تو یہی کہوں گا کہ فلم “بازار حسن” میں یہ دکھایا گیا تھا کہ اس بازار کے لوگ معاشرے کے دیگر لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ اور فلم “ٹیکسالی گیٹ” میں یہ دکھایا گیا ہے کہ معاشرے کے لوگ اس بازار کے باسیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔

اس میں حقیقتاً کوئی دو رائے نہیں ہے کہ لالی وڈ میں جو کہ لاہور کے نام سے منسوب ہے میں آج تک لاہور کے اس بازار کے بارے میں اس اینگل سے فلم نہیں بنی اس انداز میں اس اوریجنل لینگوئج میں حقیقت کے اس قدر قریب فلم نہیں بنائی گئی جیسی مصنف و ہدایت کار ابو علیحہ نے یہ فلم “ٹیکسالی گیٹ” بنائی ہے۔ محو حیرت ہوں کہ لاہور جس کی فضا میں فلم رچی بسی ہے جس میں اس قدر کہانیاں ہیں وہاں آج تک اس اوریجنل ٹچ کے ساتھ فلم بنائی بھی ہے تو ایسے شخص نے جو لاہور کے باہر سے آیا ہے لیکن یہاں میں شائد غلط ہوں کیونکہ جناب ابو علیحہ نے جس انداز میں لاہور کو اپنایا ہے، کھوجا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں لاہور سے کس قدر محبت ہے۔ کھوج کا کیا عالم ہے کہ انہوں نے “ٹیکسالی گیٹ” جیسا شاہکار بنا کر پیش کیا، بہت داد۔

“ٹیکسالی گیٹ” کے کریکٹرز دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ جیسے انہیں اس بازار میں کئی مہینوں تک قید کر دیا گیا ہو ، اس قدر کردار میں ڈوب کر اداکاری ، کرداروں کی باڈی لینگوئج، لب و لہجہ ، ہر سین میں اداکاروں نے جان ڈالی تو ہر ایک فریم میں ہدایت کار نے اپنی صلاحیتوں کو نچوڑ دیا۔ بلاشبہ جناب ابو علیحہ کا یہ اب تک کا بہترین کام ہے۔ جہاں ایک طرف انہوں نے باکمال مکالمے لکھے، ہیرا منڈی کی زبان من و عن لکھی وہیں ان مکالموں پر پورا پورا پہرہ دیا کہ اداکاروں نے جب تک ان مکالموں کا حق ادا نہیں کیا یقیناً انکی تب تک جان نہیں چھوٹی ہو گی۔ تکنیکی طور پر یہ ایک انٹرنیشنل معیار کی فلم ہے جس کا بیک گراؤنڈ میوزک ، کیمرہ ورک ، کیمرہ اینگلز ، لائٹ ڈیپارٹمنٹ الغرض فلم کے ڈارک ٹاپک کے عین مطابق فلم کو فلمایا گیا ہے۔ یاسر حسین کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ اداکاری کر رہا ہے، عائشہ عمر نے جس قدر بھیانک انداز میں کردار کی ہیبت کو پرفارم کیا اسکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ بعض لوگوں کے لئے فلم کا یہ پلس پوائنٹ ہے کہ فلم کا دورانیہ کم ہے۔ لیکن میرے لئے یہ فلم کا مائنس پوائنٹ ہے کہ کہانی اور اسکرین پلے پر گرپ اس قدر مضبوط ، اس قدر کھو جانے کی حد تک دلچسپ ، کہ جیسے شیزان کی بوتل ، جب مزہ آنے لگتا ہے تو ختم ہو جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہرحال جناب ابو علیحہ بے حد داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے معیاری سینما کی جانب جو پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے اس میں یہ فلم ایک نہایت قابل قدر اضافہ ہے۔ چمن میں جب مکمل طور پر بہار آ جائے گی تو انکی ایسی کاوشوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس بازار کا حقیقی کلچر دیکھنا چاہتے ہیں، یہاں کے لوگوں کا لب و لہجہ ، روزمرہ معمول دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ ایک مسٹ واچ فلم ہے۔ اس بازار پر ایسی فلم آج تک نہیں بنی ، ایسی جرات آج تک کوئی نہیں کر سکا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply