(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)
( قسط نمبر16)
آج جو کتابیں والد صاحب میرے پڑھنے کے لیے لائے ہیں اُن میں مزدور(مارکسی) لکھاری قمر یورش صاحب کی تصا نیف بھی شامل ہیں۔ ایک کتاب ہے ’’قمر یورش کے افسانے‘‘ اور کا بچپن کا یادنامہ ہے’’میرا بچپن‘‘۔
ان دنوں لیٹے لیٹے میں بس کتابیں پڑھا کرتا ہوں یا تیمار داری کو آنے والے دوستوں سے باتیں کیا کرتا ہوں۔ جو بزرگ اور دوست باقاعدگی سے تشریف لاتے ہیں ان میں عبدالرشید تبسم، تبسم رضوانی، عظیم قریشی،راز کاشمیری، حبیب الرحمن،بابر شوکت، افضل اقبال (افضل حنیف)،پھل آگروی، محمد شاہد، تنویر احمد، طارق جاوید اورپروفیسر جعفر بلوچ شامل ہیں۔
والد صاحب بھی اکثر اس موقع پر موجود ہوتے ہیں۔ احباب خوش گپیاں کر کے بھی میرا جی بہلانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنا تازہ کلام سنا کر بھی۔ استاد پھل صاحب کے تو کلام ہی میں پھلوں کا ذکر ملتا ہے مگر جعفر بلوچ صاحب ہربار اصلی والے پھل لے کر آتے ہیں ۔ ان کے ساتھ مختصر نظم کے معروف شاعر عظیم قریشی بھی ضرور ہوتے ہیں۔ دونوں قریب قریب ہی رہتے ہیں رحمان پورہ میں۔ اکٹھا سفر کرنا پسند کرتے ہیں۔ دونوں کو سائیکل کی سواری بھی پسند ہے۔ جعفر بلوچ اور عظیم قریشی صاحبان سے ملاقات کے وقت اگر خالد علیم صاحب اور افضل بھی موجود ہوں تو قہقہے تھمنے میں نہیں آتے۔ عظیم قریشی صاحب اپنی مختصر نظم سنا کر داد سے پہلے سے ہاتھ اٹھا اٹھا کربے اختیارانہ معصومیت سے ’’شکریہ ، شکریہ‘‘ کہنے لگتے ہیں تو ہنسی روکنا واقعی مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’کل میں نے تین مصرعوں میں نظم ہِٹ کردی اور مشاعرہ لُوٹ لیا۔‘‘
اس پر خالد علیم صاحب بے ساختہ کہتے ہیں: ’’ پھر تو آپ لُٹیرے ہوئے۔‘‘
عظیم قریشی صاحب اِس پر بھی ’’شکریہ، شکریہ‘‘ کہے جاتے ہیں۔اورپھر چند ساعتوں بعد معنی خیز انداز میں خالد علیم صاحب کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ گویا کہہ رہے ہیں:’’اب سمجھا۔۔۔تم باز نہیں آو گے شرارت سے۔‘‘
افضل کی شرارتیں البتہ کچھ عملی قسم کی بھی ہوتی ہیں جس سے عظیم صاحب زِچ بھی ہوجاتے ہیں مگر دیکھنے، سننے والے حظ اٹھاتے رہتے ہیں۔
جعفر بلوچ صاحب بھی بیچ بیچ میں لقمہ دئیے جاتے ہیں اور ہنسی میں شریک رہتے ہیں۔
*********
آج جعفر صاحب تشریف لائے تو پھلوں والا تھیلہ ماجد کو تھمایا کہ اندر لے جائے اور ساتھ ہی مسکراتے ہوئے تلقین کرنے لگے کہ پھل مریض کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں اس لیے انھیں کاٹ کر فوراً کمرے میں لے آئے۔
ماجد کٹے ہوئے موسمی پھل طشتری میں رکھ کر کمرے میں لے آیا تو جعفر صاحب نے بلا تکلف پہلی کاش اٹھائی اور کھاتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے:
’’ حامد، کھاؤ ، یار تم بھی کھاؤ۔ اسے اپنا ہی گھر سمجھو۔ تکلف نہ کرو۔ لو، کھاؤ۔‘‘
اُن کی اس بے ساختگی پر کمرا ایک بلند قہقہے سے گونج اٹھا تھا۔
٭٭٭٭٭
قمر یورش صاحب والد صاحب کے پاس بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ وہ بظاہر میری تیمارداری کے لیے آئے ہیں مگر باتیں والد صاحب سے کیے جاتے ہیں۔
’’مجھ سے خفا ہیں کیا آپ؟‘‘ میں قمر صاحب کو چھیڑنے کی غرض سے پوچھتا ہوں۔
’’ارے یہ کیوں ناراض ہونے لگے۔ قمر صاحب تو بڑے بھلے انسان ہیں۔‘‘ اُن کے بجائے والد صاحب نے جواب دیتے ہیں۔
اس پر قمر صاحب کھلکھلااٹھتے ہیں۔
’’چور کی داڑھی میں تِنکا، یزدانی صاحب۔ یہ جو حامد ہے نا، یہ خالد احمد کے گروپ میں شامل ہے جس نے مجھے تنگ کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ آپ کبھی فنون کے دفتر آکر دیکھیں شام کو۔ کتنا تنگ کرتے ہیں یہ لوگ مجھے خالد کے ساتھ مل کر۔‘‘ قمر صاحب نے محبت سے شکایت کرتے ہیں۔
’’میں تو آپ کو تنگ نہیں کرتا۔ ہاں، خالد صاحب ضرور کرتے ہیں۔ آپ نے بھی تو اپنے خاکے ‘‘ادب کے تین شیطان ‘‘ میں انہیں شیطان قرار دیا ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں۔
’’ہاں یہ تو ہے۔ میں نے کیا غلط کہا۔ نجیب احمد ہی بِیبا ہے ان میں ورنہ امجد اسلام امجد، عطا اور وہ گلزار وفا چوہدری۔۔۔ یہ سبھی دوست بڑے شیطان ہیں۔‘‘ قمر صاحب کہتے ہیں۔
’’چلیں۔ اس کی تو اب طبیعت بھی ناساز ہے۔ اسے معاف کردیں۔اس نے تو ، دیکھیے، آپ کی دونوں کتابیں بھی ختم کرلی ہیں۔‘‘
’’ایک شرط پر معاف کرسکتا ہوں۔‘‘ قمر صاحب فوراً کہتے ہیں۔
’’کیا شرط؟‘‘ والد صاحب پوچھتے ہیں۔
’’ ایک کپ اور چائے کا مل جائے تو۔۔۔‘‘ قمر صاحب ہنستے ہوئے باقاعدہ ہِلنے لگے تھے۔
’’جی، یہ تو بالکل آسان شرط ہے۔ ابھی پوری کیے دیتے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے والد صاحب امی جان سے چائے کی فرمایش کرنے کمرے سے باہر تشریف لے جاتے ہیں۔
میری طبیعت اب پہلے سے بہتر ہے مگر ابھی چلنے پھرنے کی اجازت نہیں۔
٭٭٭٭٭
معروف شاعر اور والدصاحب کے دوست نجمی نگینوی صاحب ماڈل ٹاؤن میں منعقدہ پندرہ روزہ طرحی مشاعرہ کے اختتام پر چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے والدصاحب سے فرماتے ہیں:
’’یزدانی صاحب، برخوردار حامد یزدانی اب باقاعدہ شاعری کرنے لگا ہے تو اب آپ اسے اچھا سا تخلص بھی دے دیجئے۔‘‘
والد صاحب حسبِ معمول مسکراتے ہوئے پہلے میری جانب اور پھر نجمی صاحب کی طرف دیکھتے ہیں۔ چائے کا کپ سامنے میز پر رکھ کر سگریٹ کا ایک چھوٹا سے کش لیتے ہیں اور فرماتے ہیں:
’’اِس کا نام ہی اس کا تخلص رہے تو کیا بُرا ہے!۔‘‘
’’لیکن دیکھیے، ادبی نام اور تخلص کی روایت تو بہت پسندیدہ ہے ادب میں۔ آپ ہوں یا میں یا اور دوست ہم نے بھی تو قلمی نام اختیار کیے۔ اساتذہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘ نجمی صاحب اپنے موقف کی وضاحت میں کہتے ہیں۔
’’یہ پسند اوراختیار کی بات ہے۔ لازم نہیں۔ میرے خیال میں تو ان کا نام اتنا خوب صورت ہے کہ یہی تخلص رہنا چاہیے۔ باقی ان کی مرضی ہے۔‘‘ والد صاحب نے اپنے دل کی بات کہہ دی ہے۔
’’یزدانی صاحب، آپ کا کپ خالی پڑا ہے۔ اور چائے لیجئے نا۔‘‘ عبدالرشید تبسم صاحب حقِ میزبانی ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں اوریوں میرے تخلص پر مکالمہ مکمل ہوجاتا ہے۔مگر میرے ذہن کے پردے پر گورنمنٹ کالج لاہور کا وہ دن روشن ہونے لگتا ہے جب میں فارسی کی پہلی کلاس کے لیے پروفیسرز رومز کے زیریں حصے میں واقع ایک وسیع کمرے میں کمرے میں پہنچا تھا۔
٭٭٭٭٭
یہ کمرا یا بیسمنٹ پہلے کالج کینٹین ہوا کرتی تھی۔ خیر، کلاس آغاز ہوئی اور پروفیسر صاحب نے اپنا نام بتایا:
’’ خواجہ عبدالحمید یزدانی‘‘۔
اور پھر ہم طلبہ سے تعارف کروانے کا کہا۔ ایک طرف سے باری باری سب اپنا نام بتائے جاتے تھے۔ پروفیسر صاحب کسی نام پر بس ’’ہوں‘‘ کہہ دیتے اور کسی پر مسکرا دیتے۔ اور کسی نام پر اپنا مختصر سے تبصرہ بھی فرما دیتے جس کے نتیجہ میں کمرا دبی دبی مسکراہٹوں سے چہک اٹھتا۔
مثلاً ایک منحنی سے طالب علم کے نام میں ’’مغل‘‘ سُن کر فوراً بولے:
’’برخوردار، سُنا ہے مغل شہنشاہ تو دو غلام بغل میں دبائے قلعے کی دیوارپر دوڑ لگایا کرتے تھے۔ اپنے نام ہی کی لاج رکھو۔ کچھ کھایا ،پِیا کرو۔‘‘
انہی مسکراہٹوں میں میری باری بھی آگئی۔
’’سیّد حامد یزدانی‘‘۔ میں نے کہا۔
اس سے پہلے کہ میرے ساتھ بیٹھا آغا نوید اپنا نام بتاتا پروفیسر صاحب بول اٹھے:
’’ ٹھہرو، ٹھہرو۔ ابھی اس نام کا قضیہ تو نمٹنے دو۔پھر آگے بڑھیں گے۔‘‘
پھر مجھ سے مخاطب ہوئے:
’’ برخوردار، تمھارے لیے مشورہ یہ ہے کہ فی الفور اپنا نام بدل ڈالو کیوں کہ تمھارا نام میرے نام سے بہت ملتا جلتا ہے اور یہ مسلسل کنفیوژن کا باعث بنتا رہے گا۔ کہِیں لکھنے وکھنے کا شوق بھی تو نہیں تمھیں؟‘‘
’’ جی ۔ ہے۔ میں لکھتا بھی ہوں۔‘‘ میں نے دھیمے میں ادب سے کہا۔
’’ تو بس اب مشورہ نہیں بلکہ حکم ہے کہ اپنا نام تبدیل کردو۔ ظاہر ہے تم لکھتے ہوتو کالج میگزین ’’راوی‘‘ میں بھی شائع ہوگے جس میں میں برسوں سے باقاعدہ چھپ رہا ہوں۔ اب ہوگا یہ کہ اگلے شمارہ میں میرے استادانہ کلام کی داد تو تم پاوؤگے اور تمھاری نوآموز شاعری پر تنقید کا سامنا مجھے کرنا پڑے گا۔ نہیں، نہیں ۔ یہ نہیں چلے گا۔ تم سے پہلے بھی دو طالب علم ہوچکے ہیں نام کی مماثلت کی وجہ سے انھیں بھی اپنے نام بدلنا پڑے تھے۔اگرچہ حامد اور حمید بھی ایک سے ہی ہیں مگر چلو انھیں چھوڑے دیتے ہیں۔ تم بس آخر میں سے یہ لفظ ’’یزدانی‘‘ ہٹا دو۔ سیّد حامد ٹھیک ہے یا پھر آگے کوئی اور دل کش سا لفظ اضافہ کرلو۔‘‘‘‘ پروفیسر صاحب نے تفصیلاً کہا تھا۔
’’لیکن میں اپنا نام نہیں بدلنا چاہتا۔‘‘ میں نے ادب سے کہا تھا۔
تو کیا میں اپنا نام بدلوں؟ چلواچھا، برخوردار، اصول پر فیصلہ کرتے ہیں اس بات کا۔ جس نے ’’یزدانی‘‘ نام پہلے رکھا تھا اُس کو حق دیئے دیتے ہیں۔ بعد والے کو بدلنا ہوگا۔‘‘ پروفیسر صاحب میرا نام بدلنوانے پر تُلے ہوئے تھے۔
دیکھئے سر۔ اگر یزدانی نام کی بات ہے تو ۱۶ جولائی ۱۹۱۵ میں یزدانی۔۔۔۔
حد کرتے ہو کیا تم ۱۹۱۵ کی پیدائش ہو؟۔۔۔ پروفیسر صاحب نے حیرت بھری مسکان سے میری بات کاٹ دی تھی۔
جی، نہیں سر۔ میں یہ کہہ رہا ہوں میرے والد یزدانی جالندھری ۱۶ جولائی ۱۹۱۵ کو پیدا ہوئے تھے جن کی نسبت سے مجھے یہ نام ملا تو اب اگر آپ عُمر میں ان سے بڑے ہیں تو ان کا نام ۔۔۔۔۔
ارے، ارے۔۔۔ ٹھہرو۔ کیا تم یزدانی جالندھری صاحب کے بیٹے ہو؟ تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ میں تو بس یونہی ازراہِ تفنن بات بڑھائے جارہا تھا۔ یزدانی صاحب ہر اعتبار سے مجھ سے بڑے اور قابلِ احترام ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی تو دلّی دروازے کے باہر شاہ غوث محمدؒ لائبریری میں مجلسِ اردو کے مشاعرے میں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ دیکھو، یہ سب انھیں بتانا بھی مت۔ میں تو یونہی ہنستے کھیلتے پڑھایا کرتا ہوں۔ کچھ دنوں میں سمجھ جاوؤگے تم بھی میرے مزاج کو۔
تو یہ سب پروفیسر صاحب سنجیدگی سے نہیں کہہ رہے تھے !‘‘ یہ سوچ کرذہن و دل پر قائم دباوؤیک دم ہٹ گیا تھا۔
٭٭٭٭٭
(جاری ہے)
حامد یزدانی
Hamid Yazdani
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں