لفظ اور علم۔۔۔۔سید عبدالناصر

بنیادی طور پر اسکول کے زمانے میں بچوں کے لئے سب سے اھم Skills جو ان کے اندر پیدا کی جانی ضروری ہیں وہ میری نظر میں صرف دو ہیں۔ ایک ریاضی (Mathematics) اور دوسری Reading۔ اگرچہ اسکے علاوہ دوسری skills جیسے لینگویج کمیونیکیشن (Language Communication)، کمپیوٹر پروگرامنگ وغیرہ بھی موجودہ دنیا میں بہت اہم ہوچکی ہیں لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو ان دو مہارتوں کے سامنے باقی ساری Skills ثانوی حیثیت رکھتی ہیں. طالبِ علم اگر ریاضی اور Reading میں اچھی مہارت رکھتا ہے تو وہ بقیہ ساری مہارتیں اپنے اندر زیادہ سرعت اور تیزی کے ساتھ معمولی کوشش سے پیدا کرسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان دو Areas پر توجہ مرکوز رکھنے سے آپ کا بچہ دوسرے تمام مضامین میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے اور اس کے لئے آپ کو زیادہ محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑتی۔

مزید یہ کہ جو بچے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں یا اعلیٰ تعلیم سرے سے حاصل ہی نہیں کرپاتے انکو اصل میں ریاضی میں مشکل اور اپنے ذخیرہِ الفاظ کی کمی ماردیتی ہے جس کی واحد وجہ ان کی Reading میں اس درجہ مہارت کا پیدا نہ کرنا ہے جس سے کسی خاص مضمون میں مطلوبہ مہارت پیدا کی جاسکے۔ جس سے بچوں کو دوسرے مضامین میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔ اس لئے نتیجہ کے طور پر وہ اپنے ہم جماعت بچوں سے مقابلتاً پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ریاضی کا تو براہِ راست تعلق آگے جاکر فزکس، کیمسٹری اور انجنئیرنگ اور کمپیوٹر سائنس سے ہوجاتا ہے۔ جبکہ Reading کی بہتر صلاحیت آگے جاکر ہر مضمون کو صحیح سمجھنے میں اثر انداز ہوتی ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ مشکل الفاظ کو نہ سمجھنا کسی بھی مضمون میں مہارت حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔

یہاں میرا مطلب ہر گز کسی خاص زبان یا صرف English کی Reading کرنے سے متعلق نہیں ہے جو شاید آپ سمجھ رہے ہوں بلکہ پڑھنا (Reading) اصل میں ایک ایسی صلاحیت ہے جو کسی زبان کے مشکل متن (Text) کو سمجھنے کا واحد ذریعہ ہے جو کسی بھی زبان میں ہو بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کسی بھی زبان کے کسی بھی لفظ (Word) کو پڑھنا اور سمجھنا اصل میں علم کا وہ دروازہ ہے جو اس خاص زبان سے منسلک ثقافت، نظریات اور خیالات کو سمجھنے میں انسان کی مدد کرتا ہے۔ آپ کسی بھی قوم میں بولے جانے والے زیادہ سے زیادہ الفاظ (Vocabulary) کو جانے بغیر اس قوم کی سیاسی یا سماجی حرکیات اور نظریات کو نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح چاہے وہ سائنس (Science) ہو انگریزی یا اردوادب (Literature) ہو یا مذہب (Religion) ہو آپ ذخیرہِ الفاظ کی قلت کے ساتھ کسی بھی مضمون میں کمال حاصل نہیں کرسکتے۔ اس لئے میرے خیال میں جو بچے صرف ایک زبان میں مہارت رکھتے ہیں ذہنی صلاحیتوں (Cognitive Abilities) اور اعتماد میں ان بچوں سے کمتر ہوتے ہیں جو دو یا تین یا اس سے بھی زیادہ زبانوں میں عبور رکھتے ہیں. اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو شخص زیادہ زبانیں جانتا ہو وہ اصل میں زیادہ الفاظ کو سمجھتا ہے بس نتیجتاً وہ اپنے ارد گرد بولنے اور پڑھنے والے یا استعمال ہونے والے زیادہ الفاظ کو جانتا اور سمجھتا ہے۔ اسلئے وہ اپنے اندر ایک بہترسماجی حِس (Social Sense) بھی رکھتا ہے جسکا اسکو عملی زندگی میں بھرپور فائدہ ہوتا ہے۔

مزید براں غربت کا براہِ راست تعلق اگر Low Vocabulary سے جوڑا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ میں اپنے تجزئیے میں غلط ہوں لیکن جو نتیجہ میں نے اخذ کیا اس کی تائید اس مضمون سے بھی ہوتی جو کافی عرصہ پہلے میری نظر سے گزرا تھا جس میں امریکہ کے ایک اسکول میں جب ریسرچ کی گئی کہ ایک ہی اسکول میں پڑھنے والے غریب بچوں کا جب انکے دوسرے متمول گھرانوں کے ہم جماعت (Classmates) بچوں سے موازنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ تین سال کی عمر تک غریب گھرانوں کے بچوں نے امیر گھرانوں کے بچوں سے تقریباً 30 ملین الفاظ کم سنے تھے۔ اس طرح ذخیرہِ الفاظ کی کمی (Poor Vocabulary) غربت کی ایک اہم وجہ بن کر سامنے آئی۔ لھٰذا آپ اس سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ایک ہی اسکول میں پڑھنے والے دو بچوں کی قابلیت اور ذہنی صلاحیت (Cognitive Ability) میں فرق انکے مابین ذخیرہِ الفاظ کے فرق (Vocabulary Gap) کے راست متناسب ہوتا ہے. میرا تجربہ تو یہی ہے اگر آپ کا تجربہ اس سے مختلف ہو تو برائے مہربانی اپنا تجربہ ضرور شئیر کیجئیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مزید یہ کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالہ سے ان کے اندر Reading Skills کو بڑھانا اور انکو ایک اچھا Reader بنانا اور اسکے لئے انکی حوصلہ افزائی کرنا ہماری بنیادی ترجیح ہونی چاہئے کیونکہ اسی سے بچوں کے اندر دین و دنیا کے علوم کی کونپلیں پھوٹیں گی اور وہ مستقبل میں شعوری طور پر ایک تن آور درخت بنیں گے جن پر پھول کھلیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply