اور وہ دیوار پھلانگ گئی۔۔۔۔یاسر لاہوری

ماں نے تکلیفیں برداشت کر کر کے مہینوں پیٹ میں رکھا، پھر جنم دیا اور پیدائش کے دن سے لے کر چلنے کے قابل ہونے تک سینے سے لگا کر گود کی میٹھی گرمائش میں چھپائے رکھا۔وہ باپ کہ جس کے سبب سے وہ دنیا میں آئی، جس نے دھوپ دیکھی نہ  چھاؤں دیکھی، اپنا پھٹا قمیض کُرتا دیکھا نہ  ٹوٹا ہوا جوتا دیکھا بس ایک ہی خواہش رکھی اور پالی کہ میری بیٹی سب سے الگ نظر آئے، آدھی رات کی گئی بیٹی کی فرمائش پر باپ چادر لپیٹے گھر سے نکلتا ہے کیوں کہ بیٹی نے فرمائش کر دی ہے۔جب گود میں کھیلتی تھی تو کام سے آتے ہی سب سے پہلے باپ اپنی بیٹی کو چومتا تھا۔

لیکن وہ سب مشقتیں، وہ سب محبتیں، وہ سب محنتیں آج ذلت و رسوائی کی منوں مٹی تلے دفن ہو چکی ہیں۔ماں کی بیس پچیس سالہ بے مثال و لاجواب محبت اور باپ کی پاکیزہ الفت کو پاؤں تلے کچلتے ہوئے وہ جا چکی ہے، ماں کے سینے کو آخر دم تک سلگتا چھوڑ کر، باپ کے سر کو دنیا بھر میں ہمیشہ کے لئے جھکا کر اور چھوٹے بہن بھائیوں کے معصوم خلوص و وفا کو روند کر وہ اپنی چار دن کی فانی محبت کے ہاتھوں گمراہ ہو کر جا چکی ہے۔

کون جا چکی ہے؟ کہاں جا چکی ہے؟ کب جا چکی ہے؟ کس کے ساتھ جا چکی ہے؟
ٹھہرئیے! سب نا سہی کچھ نا کچھ حالِ دل و حالتِ قلب بتائے دیتا ہوں۔
پچھلے دنوں ایک جاننے والے سے معلوم پڑا کہ ان کے کسی جاننے والے کی بیٹی اپنی شادی سے چند دن پہلے اپنے نامعلوم عاشق کے ساتھ رات گئے گھر سے فرار ہو گئی ہے۔بڑی بیٹی تھی سو اعتبار بھی “بڑا” ہو گا لیکن کیا پتہ تھا کہ وہ سب کو نیند میں دھوکہ دے جائے گی اور دیوار پھلانگ کر دیوار کے اس پار کھڑے اپنے عاشق کا ہاتھ تھامے اپنے باپ کی پگڑی پر پاؤں رکھے اپنے اس گھر کو “جس میں اس نے بچپن سے سنبھلنے تک کی عمر گزاری” ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ جائے گی۔

پسند کی بات جو ٹھہری، دل کی لگی جو ٹھہری، دھڑکتے دل میں کوئی خواہش آ جائے کوئی تمنا ابھر آئے بخدا اس میں برائی نہیں لیکن وہ کیسی پسند اور کیسی تمنا جو بابل کے آنگن کو ہی اُجاڑ جائے، جو ممتا کو چھلنی چھلنی کر جائے جو کردار و وقار کو ریزہ ریزہ کر جائے۔۔۔! ماں باپ کا چُنا ہوا دُلہا پسند نہیں تھا تو انکار کر دیتی، ضد کر لیتی، ماں باپ کو پیار و محبت سے منا لیتی۔۔۔قطرہ قطرہ گرتا رہے تو پتھر پر بھی نشان پڑ جاتا ہے یہ تو پھر ماں باپ کا دل تھا جو اولاد کے لئے پھول کی پتیوں سے نرم و نازک ہوتا ہے۔اور اگر یوں ماں باپ کی عزت نیلام کر کے بھاگنا ہی تھا تو اپنے ہاتھوں ماں باپ کو مار دیتی پھر جو مَن میں آتا کرتی۔۔۔کم از کم طبعی موت کے آنے تک ماں باپ کو یوں روز روز مرتا تو نا چھوڑ جاتی۔

کسی کہنے والے نے کہا کہ نکاح کر لیا ہے اس نے اپنے عاشق سے۔۔۔میں پوچھتا ہوں یہ کیسا نکاح ہے؟جس نکاح میں نہ باپ یے نہ  بھائی ہے، نہ  ماں کا ہاتھ ہے سر پہ، نہ  چھوٹی بہنوں کی کلائیوں پر پڑی چوڑیوں کی معصوم کھنکھناہٹ ہے! کیسا نکاح ہے یہ؟ جسے سوائے چند سر پِھروں کے نا مہذب معاشرہ مانتا ہے نہ  ہی مذہب تسلیم کرتا ہے۔یہ کیسا نکاح ہے؟ جس نکاح کے پیچھے اس نے ماں جیسی عظیم ہستی کو ٹھکرایا، مشفق و مہربان باپ کی آنکھیں شرمندگی سے جھکا دیں، اپنی چھوٹی بہنوں کا مستقبل سیاہ کر دیا۔۔۔اگر کوئی بد نصیب بھائی ہو گا تو ساری زندگی اپنے دوستوں میں، سکول کالج اور یونیورسٹی میں اپنا سر بلند نہیں کر سکے گا۔

ذرا ٹھہرئیے تو! لوگ اس دیوانہ پن کو عشق و محبت کا نام دیتے ہیں۔ہاں کچھ نادان اس جنونی پن کو محبت کی جیت قرار دیتے ہیں۔کیسی محبت ہے یہ؟ جس نے دو خاندانوں کو ایک دوسرے کے قتل پر لگا دیا؟ کیسی محبت ہے یہ جس نے عزت و اکرام کو ذلت و رسوائی میں بدل دیا؟ کیسی محبت ہے یہ جو سرِ بازار تماشہ بن گئی؟ نہیں یہ محبت نہیں، یہ محبت ہو ہی نہیں سکتی۔ایسا غلیظ جذبہ محبت کہلوانے کے قابل ہی نہیں۔۔۔یہ خود غرضی ہے، یہ اپنے خاندان کی عزت کی پامالی ہے، یہ قتل ہے عزتوں کا، یہ قتل ہے عصمتوں کا، یہ قتل ہے ننھے معصوم دلوں کا۔یہ قتل ہے ماں کی ممتا کا، باپ کے فخر و خودی کا!

Advertisements
julia rana solicitors

آپ اگر ایک لڑکی ہیں تو یاد رکھئیے آپ صرف لڑکی ہی نہیں اس خاردار دنیاوی جنگل میں آپ ایک پھول کی کلی کی طرح ہیں۔آپ کا تعلق باپ جیسے شفیق پودے سے ہے جو اپنی شاخ پر لگی اس معصوم کلی کی حفاظت بھی کرتا ہے اور اپنی رگوں سے آپ کی زندگی کو بھی قائم رکھے ہوئے ہے۔باپ کی اس معصوم کلی کا “باعزت طریقے سے کسی اور کے نام ہونے تک” اپنے شجر و پودے کے ساتھ رہنا نہایت ضروری ہے، تا کہ اس معصوم کلی کی عزت و عصمت والی خوشبو حفاظت میں رہے۔
جو پھول اور کلی اپنے پودے سے ٹوٹ جائے، جُدا ہو جائے وہ روند دی جاتی ہے، اپنی خوشبو کھو دیتی ہے اپنا آپ تباہ کر بیٹھتی ہے۔۔۔!!!

Facebook Comments

محمد یاسر لاہوری
محمد یاسر لاہوری صاحب لاہور شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت عرصہ سے ٹیچنگ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنس، فلکیات، معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والے حقائق اور اسلام پر آرٹیکلز لکھتے رہتے ہیں۔ جس میں سے فلکیات اور معاشرے کی عکاسی کرنا ان کا بہترین کام ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply