پاکستان کے بہادر ترین انسان مسٹر ظہیر الدین خان ہیں جو سینٹرل بورڈ آف فلم سنسر کے چئیرمین ہیں۔ سینسر بورڈ نے پاکستان میں بھارتی فلم ‘ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر’ کی نمائش کی اجازت دے دی ہے۔ اگرچہ انہوں نے بہت چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نمائش کے لیے چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے اگلے دن کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ اگر 24 گھنٹے قبل کا وقت رکھا جاتا تو چیف جسٹس کی طرف سے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا جنہوں نے پچھلے سال اکتوبر میں بھارتی فلموں اور ڈراموں کی پاکستانی ٹی وی چینلز اور سینماوں میں اشاعت پر پابندی لگا دی تھی۔ اپنے فیصلے میں انہوں نے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت ہمارے ملک میں ڈیم کا راستہ روک رہا ہے اور ہم ان کے چینلز پر پابندی نہیں لگا سکتے؟
ریلیز کی تاریخ بھی ایکسیڈنٹل ہی تھی۔ لاہور میں سینما کے باہر فلم کے لیے ایڈورٹائزمنٹ بورڈ لگایا گیا اس پر غلطی سے لکھ دیا گیا :ایکسیڈنٹل کرائم۔ اس کے پہلے 7 ناظرین اتنے ضعیف العمر تھے کہ انہیں کسی صورت بھارتی پروپیگنڈہ متاثر نہیں کر سکتا تھا۔ یہ فلم سنجے بارو کی کتاب The Accidental Prime Minister: The Making and Unmaking of Manmohan Singh (2014)پر مبنی ہے جو 2014 میں شائع ہوئی تھی۔ سنجیا بارو کو یقین تھا کہ وہ اس کتاب لکھنے کے لیے کوالیفائیڈ ہیں۔ وہ 2004 سے 2008 تک ڈاکٹر سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر رہے۔ بارو نے یہ تاثر دیا کہ منموہن سنگھ سونیا گاندھی کے ایک کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں اور اصلا اقتدار سونیا گاندھی کے پاس ہے جو پارٹی کی سربراہ ہیں ۔ فلم میں منموہن سنگھ کردار انوپم خیر کو دیا گیا ہے جو کہ عام طور پر ایک تیز طرار اور جاندار کردار کے حال ہوتے ہین لیکن اس فلم میں انہوں نے بلکل اپنے آپ کو بے بس اور مجبور ظاہر کیا ہے۔ اگر انوپم خیر کی اداکاری کو ذہن میں رکھتے ہوئے اندازہ لگایا جائے تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کیوں سونیا گاندھی کو منموہن سنگھ جیسا وزیر اعظم درکار تھا۔ لیکن جو لوگ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو جانتے ہیں وہ اس فلمی کردار پر یقین نہیں کریں گے۔ منموہن سنگھ دو بار وزیر اعظم بننے سے قبل ایک اچھے کیریر سے گزر رہے تھے جس میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے چیف اکنامک ایڈوائزر، ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر ، ڈپٹی چئیرمین پلاننگ کمیشن، اور پھر نارسیما کے ساتھ فنانس منسٹر کے عہدے شامل رہے ہیں ۔ پرائم منسٹر راو نے منموہن سنگھ کو بھارتی معیشت کو لبرلائز کرنے کےلیے کھلی چھٹی دے رکھی تھی جس کی وجہ سے منموہن نے اپنی بصیرت اور سمجھ بوجھ کو استعمال کر کے بھارت میں ایسی معاشی پالیسیاں متعارف کروائیں جو ڈینگ شیونگ نے چین میں اپنا کر کامیابی حاصل کی تھی۔ ڈاکٹر منموہن ڈینگ شیونگ کی اس نصیحت پر کار فرما تھا: اپنی پروفائل لو رکھو اور اپنا دماغ ٹھنڈا رکھو۔ کبھی بھی آگے چلنے کی کوشش مت کرو لیکن کچھ بڑا کرنے کا عزم ہمیشہ زندہ رکھو۔
2004 میں مسز گاندھی کی کانگریس کے زیر نگرانی یونائیٹڈ پروگریسو الائنس کی فتح کے بعد ڈاکٹر سنگھ حادثاتی طور پر بھارت کےو زیر اعظم منتخب ہو گئے۔ وہ ملک کے 13 ویں وزیر اعظم بنے اور 10 سال تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ بہت سے مواقع پر انہیں سونیا گاندھی کی مداخلت بھی برداشت کرنا پڑی جن میں سے اہم امریکہ کے ساتھ نیو کلیر ڈیل اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے معاملات قابل ذکر ہیں۔
بارو بروٹوس کی ایک قسم ہے جو پورے بر صغیر میں پائی جاتی ہے۔ پنڈت نہرو نے بھی ایک بارو کو 13 سال تک اپنے ایم او مٹھائی میں پرنسپل سیکرٹری رکھا ۔ مسز گاندھی نے وی سی شکلا کی صورت میں جب کہ صدر ایوب خان نے الطاف گوہر کی صورت میں اور ذوالفقار علی بھٹو نے کوثر نیازی کی صورت میں اپنا بارو رکھا۔ تمام سیاستدانوں کو ایک ماوتھ پیس کی ضرورت ہوتی ہے جو ان تھک ہو لیکن عام طور پر یہ لوگ مشکل وقت میں ہمت ہار جاتے ہیں اور لڑکھڑا جاتے ہیں۔
بھارت میں کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ فلم ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر بی جے پی کی فنڈنگ سے بنائی گئی ہے جس کا مقصد سونیا گاندھی کے حکومت کے طریقہ کار کو ایکسپوز کرنا ہے۔ان کے بیٹے راہول گاندھی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے آپ کو ایک وزیر اعظم کی عہدہ کے قابل بنا کر پیش کریں۔ ان کا سیاست میں اوپر کی طرف سفر مخالف سمت کی طرف سفر کی عمدہ مثال ہے۔ وہ اپنی ماں کے گاندھی خیالات سے نکل کر نہرو ازم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر وہ ڈینگ شیوپنگ کی وارننگ پڑھ لیتے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ : “نوجوان لیڈران ہیلی کاپٹر کے ذریعے اوپر جاتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ قدم بہ قدم بلندی کی طرف سفر کریں۔”
پاکستان میں یہ فلم ہماری سیاسی صورتحال کو بہترین طریقے سے بیان کرتی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ یہاں وزیر اعظم منتخب بھی ہوئے اور لائے بھی جاتے رہے ، بہت سے حادثاتی وزیر اعظم بھی آئے اور ایسے بھی جنہیں کبھی وزیر اعظم بننے کا شوق یا نیت نہ ہو، عارضی وزیر اعظم بھی آئے اور رسمی وزیر اعظم بھی؟ ان میں سے کچھ بھی ہو، یہ فلم ہمارے ملک جیسی جمہوریتوں کی کہانی سامنے لاتی اور یاد دہانی کرواتی ہے کہ اس طرح کی نیم جمہوریت میں کس طرح حکومتوں کو تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈینگ شیوپنگ اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی طرح ، ہمارے وزیر اعظم عمران خان اپنے آپ کو ایک روشن خیال مصلح سمجھتے ہیں۔ ابھی تک توانہوں نے ایڈوارڈ گبن کی نصیحت “ایک مصلح کو اپنے مفاد کے شک سے پاک ہونا چاہیے” کے ایک حصے پر ہی عمل کیا ہے۔ ابھی تک انہیں دوسرے حصے پر عمل کرنا ہے جس میں لکھا ہے ” اور اس کے اندر اتنا اعتماد ہونا چاہیے جتنا وہ دعوی کرتا ہے”۔
بشکریہ دنیا پاکستان
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں