مسکراہٹ، شکریہ اور معذرت، کامیابی کی کنجی۔۔۔امتیاز احمد

اس کا جواب میرے سوال سے بھی زیادہ عجیب تھا۔ وہ شکل سے بالکل نارمل لگ رہا تھا، نہ خوشی تھی نہ غمی، بس اپنے کام میں مگن تھا۔ میرے پہنچتے ہی اس نے مسکراتے ہوئے لہجے میں پوچھا کہ آپ کیا لیں گے؟
میں نے اسے اپنا آرڈر دیا لیکن ساتھ ہی اس سے یہ بھی پوچھ لیا کہ تمہارا کیا حال ہے؟
جرمنی میں آپ کسی دکان میں کچھ خریدنے جائیں، تو ایسا شاز و نادر ہی ہوتا ہے کہ کاونٹر پر موجود کسی لڑکی یا لڑکے سے اس کا حال پوچھا جائے۔
چند روز پہلے سب وے میں سینڈوچ تیار کرنے والے لڑکے سے جب میں نے اس کا حال پوچھا تو اس کا جواب مجھے اپنے سوال سے بھی عجیب لگا۔
اس نے فوری طور پر کہا کہ آپ نے میرا حال کیوں پوچھا ہے؟

یہ جواب سن کر میں فوری طور پر معذرت خواہانہ رویے میں آ گیا کہ ایسے کسی کی ذاتی زندگی میں چھلانگ نہیں لگانی چاہیے۔جرمنی میں یہ روایت تو بہت مضبوط ہے کہ ہر دکان والا آپ کو مسکراتے ہوئے ویلکم کرتا ہے لیکن گاہک کی طرف سے حال دریافت کرنے والی روایت نہ ہونے کے برابر ہے۔
میں نے فوری طور پر لڑکے سے معذرت کی کہ میں نے آپ سے آپ کا حال پوچھا اور آپ کی زندگی بلاوجہ مداخلت کی۔ اس کے بعد خاموشی چھائی رہی۔

خیر جب بل سامنے آیا تو اس میں تقریباً  چالیس فیصد ڈسکاونٹ تھا۔ میں نے پوچھا یہ کیوں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہ تمہاری طرف سے میرا حال پوچھنے کا جواب ہے۔ میں نے کہا کہ پلیز نیا بل بنا کر دیں لیکن وہ نہ مانا۔
وہ کچھ دیر تو خاموش رہا لیکن پھر بولا کہ میں اصل میں کافی مہینوں سے اس دکان پر کام کر رہا ہوں۔ دن میں سینکڑوں گاہک آتے ہیں لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے؟
مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی ہے لیکن حیران ہوں کہ تم نے مجھ سے کیوں پوچھا؟۔۔۔مجھے ایک دم تو یوں لگا کہ وہ باتیں کرتے کرتے رو دے گا لیکن وہ اپنا کام بھی ساتھ ساتھ کرتا رہا۔

میں اس دن کافی دیر سوچتا رہا کہ ہمیں اپنے اردگرد اکثر ایسے لوگ نظر آتے ہیں، جو بظاہر پریشان اور تنہا نظر نہیں آتے لیکن آپ ان کے تھوڑا سا بھی قریب جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اندر سے کتنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور اندر سے کس قدر تنہا ہیں۔

آپ جن لوگوں سے کام لے رہے ہیں ظاہر ہے وہ مشینیں تو نہیں ہیں، آخر کار انسان ہی ہیں۔ ان کے بھی جذبات ہیں، دل ہے، احساسات ہیں لیکن اکثر اوقات ہم ان سب چیزوں کو بھول جاتے ہیں۔

میں جب بھی پاکستان جاتا ہوں تو ایک چیز جو رویوں میں سب سے زیادہ تلخ محسوس ہوتی ہے وہ شکریہ نہ کہنے، معذرت نہ کرنے اور مسکرا کر بات نہ کرنے کی عادت ہے۔

اب مسکرا کر بات نہ کرنا اور دوسروں سے سوری جیسا لفظ نہ کہنا، جس ریڑھی والے سے آپ سبزی یا پھل خرید رہے ہیں، جو ویٹر آپ کو پانی اور کھانا لا کر دے رہا ہے، اس کا شکریہ ادا نہ کرنا حکومت کی وجہ سے تو نہیں ہے۔ ظاہر ہے یہ ہمارے اپنے رویے ہیں اور یہ تو ہمارے اپنے بس کی بات ہے۔

چند برس پہلے میں پاکستان میں ایک میڈیکل  سٹور پر گیا تو کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے کا رویہ ذرا ترش تھا۔ وہ باقی گاہکوں سے بھی سخت لہجے میں بات کر رہا تھا۔ میں نے  ان سے کہا کہ بھائی اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا میڈیکل  سٹور زیادہ چلے تو آپ اپنے چہرے پر مسکراہٹ اور لہجے میں نرمی لائیں۔

اب جرمنی میں یہ بات ناممکن سی ہے کہ کوئی آپ سے سخت لہجے میں بات کرے۔ آپ کو کاونٹر پر کھڑا ہر شخص مسکرا کے اور نرم لہجے میں بات کرتا ملے گا اور آخر میں آپ کا شکریہ بھی ادا کرے گا کہ آپ نے ان کی دکان سے خریداری کی ہے۔

آپ پاکستان میں بھی دیکھ لیں، جو شخص مسکرا کے دوسرے کو ملتا ہو گا، دوسروں کا شکریہ ادا کرنے والا ہوگا لوگ اسے پسند کرتے ہیں اور ایسے لوگ کامیاب بھی رہتے ہیں۔

آپ چاہے  سٹوڈنٹ ہیں، دکاندار ہیں، اپنا کاروبار کرتے ہیں یا کسی دفتر میں ملازم ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ سے محبت کریں، آپ زندگی میں کامیاب ہوں اور لوگ آپ کو پسند کریں تو تین کام شروع کریں۔
آپ کی خدمت میں جو کوئی بھی کوئی چیز لائے یا پیش کرے، یا آپ کے لیے کوئی کام کرے، جس کے آپ نے پیسے بھی ادا کیے ہیں، مسکراتے ہوئے اس کا شکریہ لازمی ادا کریں۔ آپ کے چھوٹے بچے بھی پانی کا گلاس لائیں تو انہیں شکریہ کہیں۔

آپ اپنے ملنے والوں کو بلا رتبہ دیکھے مسکرا کر ہیلو کہیں، سلام کہیں، ان کا حال چال پوچھیں۔ دفتر جاتے ہیں تو چوکیدار تک کو مسکرا کر سلام کہہ کر جائیں۔
اور تیسری بات ہمیں ایک دوسرے سے معذرت کرنے کا ہنر سیکھنا چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے معذرت کریں۔
آتے جاتے راستے میں آپ کا بازو کسی کو لگ جائے، کندھا لگ جائے، ہاتھ لگ جائے بس میں بیٹھتے ہوئے پاؤں لگ جائے تو معذرت ضرور کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے خیال سے مسکراہٹ، شکریہ اور معذرت تین ایسی چیزیں ہیں جو آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply