• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دروازوں کے باہر چاندنی ـــــــ چند تاثرات(دوم ،آخری حصّہ)۔۔اکرام اللہ

دروازوں کے باہر چاندنی ـــــــ چند تاثرات(دوم ،آخری حصّہ)۔۔اکرام اللہ

انسان کو اس کائنات کے چند سیارگان میں جھانکنے کا موقع مل سکا ہے لیکن اُسے ابھی کسی سیارے میں پانی کی موجودگی کی شہادت نہیں مل سکی، حیات تو بعد کی چیز ہے۔ لاانتہا کائنات میں کہیں اور حیات ہے یا نہیں اس کی کرۂ زمین کے کسی باسی کو کوئی خبر نہیں ہے۔صورتِ حال شروع سے کچھ ایسی ہی چلی آ رہی ہے کہ انسان فطرت کا قیدی ہے اور کرۂ زمین مع  چند ایک اور جانداروں کے اس کا قید خانہ مقرر ہے ۔ اس کا کسی بھی چیز پر مع  اپنے جینے اور مرنے کے کوئی اختیار نہیں ہے حتیٰ کہ وہ اپنی صورت تک بلا واسطہ نہیں دیکھ سکتا۔ اس موضوع پر بے شمار اشعار ہیں چند ایک محض نمونے کے طور پر پیش ہیں:
لائی حیات ،آئےقضا ، لے چلی ،چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
(ذوق)
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقہء دام ِ خیال ہے

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
(غالب )
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
(میر)

احتشام علی نے “اوراقِ خزانی” سے چند ایسے ہی اشعار کی نشاندہی کی ہے جو نوع میں باغیانہ ہیں اور پوری کتاب کا مزاج بھی کچھ ایسا ہی بتایا گیا ہے۔ نمونے کے لئے چند اشعار درج ذیل ہیں:

وہ یقیں ہو کہ گماں کچھ نہیں باقی دل میں
ہاتھ اٹھتے ہیں نہ ہونٹوں پہ دعا آتی ہے

زمین پر بھی سرِ آسماں بھی کوئی نہیں
یہاں بھی کوئی نہیں ہے وہاں بھی کوئی نہیں

اِسی مٹی کے گھر میں سب کچھ ہے
کیوں نظر سوئے لامکاں رکھوں
کبھی یہ شک کہ ہو سکتا ہے اُس نے
بنایا ہی نہ ہو روزِ مکافات

احتشام علی کا خیال ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے موت کے قرب اور نیستی کے خوف نے انہیں ایسے خیالات کے اظہار کی طرف مائل کردیا۔ یہ ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا۔ دیکھنے میں تو یہ آیا ہے کہ موت کا قرب بیشتر لوگوں کو موت کے دامن میں پناہ تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے نہ کہ بغاوت کا علم اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے۔ دوسرےیہ کہ تصوف سے رغبت رکھنے والے جوانی میں ہی دوسروں کے لئےایثار، پیار ، تحمل کا شعار اپنا لیتے ہیں اور تادم ِ واپسی  اس پر قائم رہتے ہیں جیسے گرو نانک دیو، بھگت کبیر، میرا بائی اور مسلمان صوفیاء نے کر کے دکھایا ۔ تیسرے یہ کہ مہاتما بدھ عین نوجوانی کی عمر میں انسانی زندگی میں جبر،ظلم ، دکھ ، بیماری اور موت کے ہاتھوں دوسروں کو عاجز ہوتے دیکھ کر ہی گھر بار چھوڑ کر دکھوں کا علاج ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوئےتھے۔ زندگی میں کوئی افتاد آ ن پڑے یا مشکل مراحل کا سامنا ہو تو ہر شخص کا ردِ عمل اُس کی ذاتی فطرت کے مطابق ہوتا ہے تاوقتیکہ ایسے حالات کا سامنا کرنے کے لیے اس کی خصوصی تربیت نہ ہوئی ہو جیسے فوج یا پولیس کے ملازمین کی ہوتی ہے۔

فطرت ،کرۂ ارض پر تمام جانداروں کی آبادی بڑھانے کا خصوصی شوق رکھتی ہے، مگر ایسا کیوں ہے؟ یہ فطرت کا راز ہے جس کو جاننا مشکل ہے۔یہ بچوں کو کسی قدر تحفظ فراہم کرتی ہے ،لیکن متوسط عمر کو پہنچتے اور بوڑھے زن و مرد کو چاہتی ہے کہ جلد موت سے ہم کنار ہو جائیں ۔جنس کا جنون اس انتہا تک کا پیدا کرتی ہے کہ جانور تک اس کے زیرِ اثر اپنے رقیبوں سے بہت بھیانک سلوک روا رکھتے ہیں۔

یہ سوچ بھی تو ہو سکتی ہے کہ جب شاعر نے ” اوراقِ خزانی” کے متذکرہ بالا شعر کہے تو وہ دو متصادم زمانوں کے درمیان پھنسا کھڑا تھا۔ ادب عالیہ اور شاعری سے متعلق کتب کی پوری دنیا میں طلب اور اشاعت زوال پذیر تھی اور ہے۔ آج پاکستان میں نامور شعرا کی تعداد پچاس برس پہلے کی نسبت آدھے سے بھی کم رہ گئی ہے ۔اس تناسب سے آپ اندازہ کر سکیں گے کہ دنیا کتنی چھوٹی ہو گئی ہے اور اس میں دھیرے دھیرے یک رنگی(مثل ِچاندنی) اندر چلی آ رہی ہے۔ادب شاعری بلکہ فنون لطیفہ کی بیشتر شاخیں رو بہ زوال ہیں اور ان میں نئی جہتیں پیدا نہیں ہو رہیں ، مستقبل میں کون ان کو دیکھے گا اور اس کی دوسروں کو پہچان دے سکا گا۔ ناپید ہونے والوں کی دیکھ بھال کی کسے پڑی ہوئی ہے۔

دنیا کے بڑے بڑے سائنسدانوں نے جن میں نوبل انعام یافتگان بھی شامل ہیں ، سائنس کے مشکل اور الجھے ہوئے مسائل کو ایک طرف کرتے ہوئے محض حقائق اور نتائج کو سادہ اور عام فہم زبان میں بیان کرتے ہوئے ، قاری کے اُفقِ علم کو وسعت دی ہے جس سے کالا علم ، مختلف اقسام کے جادو ، بھوت پریت کا زور ٹوٹا ہے۔ مذہب کے زور پر چیزوں کا طاقت اور قدرتی صلاحیتوں سے ہزاروں گنا بڑھ کر نتائج پیدا کر کے دکھانے والے لوگ منظر سے غائب ہوگئے ہیں۔ایسے واقعات کہ پیر صاحب خانقاہ میں موجود رہے اور اُسی وقت حج کے موقع پر میدان ِ عرفات میں بھی دیکھے گئے ۔ یہ شرف اب ان سے چھن گیا ہے۔

ایک گمان یہ بھی ہے کہ انسان جس قدر عقل و ذہانت کا مالک ہے اگر اُس کے پاس کائناتی معیار کا وقت موجود ہو تو وہ یقیناً کائنات کے رازوں کو معلوم کر کے انہیں حصول ِ مقاصد کے لیے برت سکتا ہے ۔ قدرتی عوامل اسے کبھی بھی زمین کی قید سے نکلنے نہ دیں گے۔ جونہی وہ اپنی صلاحیتوں کو مجتمع کر کے کوئی رُخ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے تو اُس کی موت کا وقت آپہنچتا ہے لیکن اس کے باوجود انسان فطرت کے چند طریقوں سے آگہی پا کر فطرت کی حدود کے اندر جھانک تو سکا ہے ، جس پر علامہ اقبال کو یہ شعر کہنا پڑا

عروج ِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے

سو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نئی سائنسی معلومات نے جو وسعت احمد مشتاق کے ذہنی اُفق کو دی وہ متذکرہ بالا اشعار کے کہے جانے کا سبب بنی ہو۔ان اشعار پر یہ گمان کرنا غلط ہوگا کہ یہ ایک طرح کا اظہارِ بغاوت ہے۔اس طرح کے بے شمار اشعار لوگوں نے پہلے بھی کہے ہیں ۔ اس کی بڑی مثال تو علامہ اقبال کی نظم شکوہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ کرۂ ارض پر جانداروں اور خاص کر سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان پر جبر، اکراہ، بے بسی، بے اختیاری اور اُسے عقل دے کر انتہائی پردہ داری کا طریق ہے،یہ سب چیزیں مل کر مایوسی کے عالم میں ہونٹوں پر کلمۂ احتجاج تو لاتی ہیں مگر بغاوت نہیں۔ دوسرے یہ کہ بغاوت کے لیے فریقین کے مابین طاقت اور وسائل کا تناسب بہر صورت ہوتا ہے۔پوری کائنات کے لاانتہا رازوں کی تعداد اور انسان کی محدود استعداد اور کمزور انسان کا لاانتہا طاقت کے مقابل آنا کہاں ممکن ہے؟ یہ ایک حرف ِاحتجاج جو رحم دل آقا کے خانہ زاد غلام کبھی مایوسی کے عالم میں چیخ پڑیں تو یہ ہرگز بغاوت نہیں کہلائے گی ۔ یہ خالق اور مخلوق ، آقا اور غلام کی آپس کی باتیں ہیں اور ان کو ہر ہما شما کو فریق بننے کی دعوت شمار کرنا آپ کی غلطی ہوگی جب کہ آقا خود اس کو غلطی شمار نہیں کرتا۔

احتشام علی نے اپنی کتاب میں یہ اطلاع دی ہے کہ جتنے تحریری ریویو ” اوراقِ خزانی” کے بارے میں ان کی نظر سے گزرے ہیں قارئین نے احمد مشتاق کے اشعار کو پسند کیا اور سراہا ہے ۔احتشام علی کی رائے ہے کہ شاعرانہ محاسن اور خوبیاں جو احمد مشتاق کی شہرت اور مقبولیت کا باعث ہوا کرتی تھیں وہ اِن اشعار میں ذرا کم ہیں۔ “اوراقِ خزانی” کھولی تو یوں لگا جیسے ایڈورڈ منک
اُبھر “The Scream” ) کی مشہورِ عالم تصویر ،چیخEdvard Munchکے تصور کے وسط میں آن اٹکی ہے۔ لکڑی کا بوسیدہ سا پُل ، گھٹیا سی ریلنگ،کوئی کنارہ نہ شروع کا نہ ختم ہونے کا دکھائی دیتا ہے ۔ ریلنگ سے لگا کھڑا صرف ایک کفتی نما، مگر رنگ میں سیاہ ، قمیض میں ٹنگا ، فاتر العقل سا پندرہ سولہ برس کا نحیف و نزارلڑکا ، کوئی ساڑھے چار فٹ اونچا،ذرا آگے کو جھکا، دونوں ہاتھ آواز دینے کے ڈھنگ میں چہرے کے دونوں اطراف میں اٹھے ہیں۔سر پر کپڑا منڈھا لگتا ہے۔ چہرے پر بالوں کا شائبہ تک نہیں ، کیا خبر کہ عورت ہی ہو اُس کے چہرے بشرے اور پھٹی آنکھوں سے خوف ، بے بسی، بد نمائی ابلی پڑتی ہیں۔ چیخنے والے پتلے کے دور پیچھے دوسیاہ لباس میں مبہم سے سائے بھی چلے آ رہے ہیں۔پُل پر کوئی ویرانی سی ویرانی ہے ، مظاہر ِ فطرت میں سے شفق کے سُرخ سنہری رنگوں کی جھلک بوسیدہ پُل پر بھی ہے۔ سیاہ موجیں طاقت سے بھری ہیں ۔ چیخ کے سارے لوازمات موجود ہیں مگر ان کو کیا کرنا ہے جب مرکزِ تصویر چیخ، خود مفقود ہے۔شیکسپیر نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو نظروں میں تولتے ہوئے حقیقت اور سچائی سے حیرت انگیز حد تک مماثل زندگی کو پہچان دی ہے:
“Life is a tale told by an idiot full of sound and fury signifying nothing”

لاہور کے پاگل خانے میں محبوس ایک بشن سنگھ نامی دیوانہ جس کی عرفیت “ٹوبہ ٹیک سنگھ” وہاں سارے میں مشہور تھی۔منٹو صاحب نے اس سچے واقعہ پر ،تقسیم ِ ملک کے بارے میں بہترین کہانی تحریر کر دی تھی ۔ دونوں حکومتوں کے متفقہ فیصلے کے مطابق سرکاری افسران ہندو سکھ پاگلوں کو ہندوستان منتقل کرنے کے لئے ، انتظامی امور اور اور کاغذات تیار کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ بشن سنگھ اپنے آبائی قصبے “ٹوبہ ٹیک سنگھ” سے گہری وابستگی رکھتا تھا وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی خاطر پاکستان چھوڑ کر ہندوستان منتقل ہونے پر تیار نہ تھا۔ اُس زمین کے ٹکڑے پر جو کسی کی ملکیت نہ تھی وہ اپنے مؤقف پر ڈٹا کھڑا تھا۔ کہانی کا آخری پیرا گراف درج ذیل ہے:
“سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی ، اِدھر اُدھر سے کئی آفیسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ جو آدمی پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہ تھا اوندھے منہ لیٹا تھا۔اُدھر خار دار تاروں کے پیچھےہندوستان تھا،اِدھر خاردار تاروں کے پیچھے پاکستان تھا۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔”

Advertisements
julia rana solicitors

احمد مشتاق کی کتاب ” اوراقِ خزانی” میں بہت سے اشعار فلک شگاف چیخ کی صورت ہیں۔احتجاجی چیخیں یا تو کتابوں میں ڈھکی چھپی، اَن سُنی پڑی رہ جاتی ہیں یا دیوانے کی بڑ سمجھ کر بھلا دی جاتی ہیں، لیکن ہر آواز جو سرزد ہوئی وہ زمین کی فضا میں سُنے جانے کی متمنی ،باصلاحیت کان کے انتظار میں زندہ رہتی ہے۔ اسرافیل جب صور پھونکے گا تو یہ سب آوازیں اور وہ بھی جو ناکردہ گناہوں کی طرح سے سرزدنہ ہو سکیں مگر داد کی طالب ہیں ،اپنے انگ ،رنگ اور ٹھاٹھ میں سنائی دیں گی۔صورِ اسرافیل کی نہایت دھیمی سی معصوم صدا دیکھتے دیکھتے ایک بھیانک صدا میں مبدّل ہوتی چلی جائے گی۔ زمین کانپے گی، پہاڑ اس کے سامنے روئی کے گالے بنےفضا میں تیرتے پھریں گے۔ سمندر اُبلنے کے رُخ چل پڑیں گے۔ زمین کے بطن سے جنم لینے والے جنگل اپنی ماں دھرتی کے لئے جلتی چتا کا روپ دھارے کھڑے ہوں گے۔ زندگی، روشنی، تمازت غائب ہو جائیں گے ۔ اندھیرے، سردی اور غیر زندگی(موت) باقی رہ جائیں گے۔ کیا پھر کبھی زندگی کا میلہ جمے گا؟ کیا پھر عظیم دھماکہ ہوگا؟ کتنویں بار؟ یہ سب تو وہی ایک بتائے گا جو قائم بالذات ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply