عورت مارچ اور اعتدال۔۔حسان عالمگیر عباسی

جو ماں بیٹے کو کوک میں پناہ دیتی ہے اس کے مرد ہونے کی وجہ سے کیسے اس کے خلاف ‘چراغِ محفل’ بن کر غیر فطری احتجاجی ندائیں دیتی ہے؟ یہاں ممتا کہاں گھاس چرنے پہنچ جاتی ہے؟ یہاں پیروں تلے جنت کا دعویٰ کیسے درست تصور کیا جائے؟ اپنا بیٹا بھلے ساتھ ہو لیکن اسی روپ میں اکثریت گھروں میں بیٹھے اپنا تماشا دیکھ کر کڑھتے ہیں۔

جو بیوی خاوند کی غیر موجودگی میں اپنی عزت و عصمت کی حفاظت، اور ‘شمع خانہ’ کی صورت برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرواتی ہے, کیسے آج اس کی ‘موجودگی’ میں بھی تماش بینوں کی ہو کر رہ جاتی ہے؟ اپنا خاوند بھلے ساتھ ہو لیکن اسی روپ میں اکثریت، نان نفقے کے متلاشیوں کی تکریم کیسے چوک میں نہ ناچے؟ آخر لہر ہے اور اثرات مرتب کرتی ہے!

جو بیٹی، باپ کی  لاڈلی، غیر ضروری خواہشات کا باپ کے سامنے  مظاہرہ  کرنے اور منوانے والی جب باپ کا سر اونچا کرنے کی یقین دہانی کرواتی رہے تو آج اسے کیا ہونے لگا ہے کہ اسی باپ کو حقوق کی عدم ادائیگی کا ذمہ دار کہہ کے اس کی ناموس کو چوک میں لٹکائے عبرت کا نشان بنانا چاہتی ہے؟ اپنا باپ بھلے ساتھ ہو لیکن ان بیٹیوں کا کیا قصور جو وفا کی پیکر ہیں؟

جو کل تک بہن اپنے بھائی کا مان تھی, آج کیسے اس کے مرد ہونے کی وجہ سے حیثیت ہی سے مانع ہونے لگی؟ جو کل تک شان تھی, آج کیسے اس کے ‘جنس مخالف’ ہونے پہ جملہ بازی پہ اتر آئی ہے؟ اپنا بھائی بھلے ساتھ ہو لیکن بہنوں کی اکثریت آج بھی اسی طرح بھائیوں کے سر کا تاج اور فخر ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یقیناً خواتین کے پاس عالمی دن کی مناسبت سے آگاہی دینے کا اختیار ہے لیکن کوشش یہ کریں کہ انتہا پہ مت جائیں۔ جائز حقوق کا مطالبہ جائز ہی نہیں بلکہ کار آفریں ہے لیکن جن حقوق کی مانگ مارکیٹ میں بڑھ رہی ہے, وہ خدا نے بندے کو ہی نہیں دے رکھے۔ ‘میرا جسم, میری مرضی’ کے ذو معنی نعرے کے مختلف ورژنز کی توضیحات کو مارکیٹنگ ٹول کے طور پہ لیتے ہوئے پراڈکٹ بیچنے کی بجائے ایسا کچھ مارکیٹ میں آویزاں کریں جو مسئلے کے حل کی طرف توجہ دلائے۔ ‘لو اپنا کھانا خود گرم کر لو’ اچھی پراڈکٹ ہے لیکن پراڈکٹ بیچنے کا گر جاننے والے کو گرو کہتے ہیں۔ ‘لیں کھانا گرم کر لیں’ میں وہی پراڈکٹ تہذیب کے دائرے میں محصور ہو سکتی ہے۔ رد عمل کی دنیا میں رہنے والوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ کوشش یہ ہو کہ تشدد کو توازن، اعتدال، اور معاملہ فہمی سے ختم کیا جائے۔ مان لیا کہ وقت لگے گا لیکن مردانہ تشدد اور انتہا کے مقابل اگر نسوانی تشدد اور انتہا کھڑی ہو جائے تو شدت سے کوڑے برساتی ہے۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جب عورت کو دائرہ اختیار سے نکل کر اپنی انتہائی قوت کا اندازہ ہونے لگتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply