عورت جاتی کے نام ۔۔ناصر خان ناصر

خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ گھر کی خواتین سمیت دنیا بھر کی صنف نازک خوشی سے پھولی پھٹی پڑتی ہیں۔ دن ڈھلا اور اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔ پھر وہی چولہا روٹی، بک جھک اور زندگی کے عذاب ۔
عورت جاتی کو نجانے ہوش کب آئیگا؟۔ اسے چونا لگانا اتنا آسان کیوں ہے؟۔

اری نیک بختو۔۔۔ اگر سال بھر میں صرف ایک دن پوری دنیا کی خواتین سر پر پٹی باندھ کر اٹوانی  کھٹوانی  لے کر پڑ رہو تو مرد جاتی کو لگ پتہ جائے۔ سارے دھندے کاروبار چوپٹ ہو جائیں۔ دنیا میں اکثریت خواتین کی ہونے کے باوجود انھیں مردوں کی اقلیت سے دب کر رہنا پڑتا ہے، ہمہ وقت ان کی جوتی سیدھی کرنی پڑتی ہے۔

ہمارے معاشرے،مذہب اور تہذیب نے ہمیشہ عورت کو دوسرا درجہ دیا اور تیسری مخلوق سے بھی  کمتر جانا، آدم کی پسلی سے پیدا کر کے ثانوی حیثیت جو روز ازل سے اسے دی گئی  تو وہ پهر کبھی اُٹھ کر برابر نہ بیٹھ سکی،حوا کے بہکاوے میں آ کر گندم کھانے اور بہشت سے نکالے  جانے کے جرم کو نہ تو آدم نے کبھی معاف کیا نہ آدم زادے نے، بلکہ عورت کی زندگی دھرتی پر ہمیشہ کے لئے جہنم بنا کر رکھ دی گئی ۔ “مرے پہ سو درے” کے مصداق   پھر تقدیر نے بھی  یہی مژدہ جانفزا سنایا کہ مرنے کے بعد جہنم میں بھی اسی عضو ناقص کی اکثریت ہو گی۔ لہو کا عذاب بھی اسی کے گلے کا طوق ہے اور دنیا کا سب سے بڑا درد۔۔درد زہ بھی،اپنے جسم میں اپنے خون سے بچے کی نمو کی بھی  وہی  ذمہ دار ٹھہرائی  گئی  اور اپنا دودھ بھی وہی پلائے، یہ تقدیر کی نا انصافی بھی عورت ہی کا نصیب کیوں؟۔

قدرت نے کبھی  کسی عورت کو نبی بنایا نہ رسول۔۔ ایک آدھی ولیہ بنا بھی  دی گئی  تو کسی کے حلق سے کبھی  نہ اُتری،تہمتوں کی بھرمار تلے ایسے دب گئی  کہ کسی کو نام و نشاں تک یاد نہیں، عورت کے ساتھ یہی حشر نشر اور سلوک تمام مذاہب کے خداؤں نے کیا ہے۔ تب ہی  خود توانا اور مذکر کہلائے ہیں، دنیا کے کسی بھی  مذہب میں خدا کی ذات مونث نہیں ہے،ہندوؤں کے ہاں اسے دیوی بنا کر پوجا تو ضرور گیا مگر ہمیشہ کسی دیوتا کے قدموں تلے بٹھال کر اس کی حیثیت  ثانوی ہی رکھی  گئی۔ بےچاری عورت کو مردوں کے  ہاتھوں ہی سے دکھ نہیں ملے، اسکا استحصال خود دوسری عورت نے بھی  ہر جگہ کیا، کبھی کسی عورت ہی نے کسی دوسرے کی بیوی کے سینے پر محبوبہ بن کر مونگ دَلی تو کبھی اپنے جیسی ہی کسی دوسری  عورت  کی  زندگی ظالم ساس یا لڑاکا نند بن کر اجیرن کیے رکھی۔

اسے ہی ہمیشہ سوتیا ڈاہ کے دکھ بھی سہنے پڑے کہ مردوں کو چار چار قانونی شادیاں کرنے کی کھلی چھٹی ملتی رہی ہے۔

صرف اکیلی مہا بھارت کی دروپدی نے پانچ پتی کیا کر لئے، قیامت ہی آ گئی، جب تک اسے بھی بهری سبھا میں ننگا کر کے زندہ درگور نہ کیا گیا، مہا بھارت کی کہانی ختم نہ ہو سکی، پھر حد یہ کہ شوہر کے مرنے پر اگر کسی عورت کو زندہ جلا کر ستی نہیں کیا جا سکتا تو زندہ درگور ضرور کر دیا جاتا ہے۔
ازل سے آج تلک
کہیں رادھا رلائی  جاتی ہے
کہیں سیتا ستائی  جاتی ہے
تری مرلی کی خیر ہو موہن
میرا اب تک نچائی  جاتی ہے

اصل حقیقت یہ ہے جناب کہ مردوں کی بنائی  دنیا میں مردوں ہی کے  قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ خواتین چاہے کتنے ہی تیر مار لیں اور خواہ کتنی ہی تیس مار خان بن جائیں، انھیں درجہ ہمیشہ مرد سے نچلا ہی ملنا ہے۔ نوبل پرائز والوں نے تو پھر بھی عورت ذات کی لاج رکھ لی اور انھیں کچھ نہ کچھ حصہ دے ڈالا۔  ہمارے خدا نے آج تک ایک لاکھ چوبیس ہزار مرد پیغمبر اور رسول تو اس دنیا میں بھیجے مگر کسی ایک عورت کو اس قابل نہ گردانا کہ وہ بھی شمع ہدایت کے اجالے نور الہی بنا کر پھیلا سکے۔ اور یہی حشر دیگر مذاہب نے بھی کیا۔یہودیوں میں اکلوتی خاتون نبیہ “ربوہ” کا ذکر ملتا ہے۔ کیتھولک مذہب نے مریم کو سر آنکھوں پر بٹھایا مگر خدا اور بیٹے کے بعد۔ ہندو مذہب میں دیوی بنا کر پوجا تو گیا مگر ہمیشہ کسی دیوتا کے قدموں میں بٹھا کر۔۔۔ جب دنیا بھر کے مذاہب اور تہذیبوں نے عورت سے دوسرے درجے کی شہری بنا کر سوتیلی ماں کا سا سلوک ہی روا رکھا تو ادبی دنیا کہاں سے مختلف ہوتی؟۔ عالمی ادب کو گولی  ماریئے، اک نظر اردو ادب پر ہی ڈال لیجیے۔ خواتین نے ایک سے بڑھ کر ایک اتنا چٹ پٹا کرارا اور طرح دار لکھا کہ مردوں کی دال تک نہ گل پائی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شاعری کے میدان میں تو روایتوں اور بندھنوں میں جکڑ کر اس کا منہ بند رکھا گیا۔ صرف میرا بائی  اور چند منہ زور خواتین ہی اپنا لوہا منوا پائیں مگر نثر کا میدان حشر کا میدان ہے، جہاں خواتین نے مردوں کو لوہے کے چنے چبوا کر ان کے چھکے چھڑوا دیے۔ ایسی عبرت ناک شکست فاش دی کہ الامان۔ اب یہ الگ بات ہے کہ کبھی کسی مائی  کے لعل نے یہ سب کچھ مان کر ناری کا مان نہ بڑھایا۔ اسے ہمیشہ پیر کی جوتی سمجھنے والوں نے اسے کبھی برابری دی نہ عزت۔۔۔ بدلتے وقت کے ساتھ خواتین میں “جگاری” پیدا ہو رہی ہے۔ ایک خاتون نے باجماعت نماز کی امامت کر کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ اگلی صدی خواتین ہی کی ہو گی کہ ان کی اکثریت اب تمام دنیاوی علوم حاصل کرنے میں بھی مرد جاتی پر بھاری پڑ رہی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply